حوصلے اور جواں مردی کا پیکرفیاض احمد ،تماشائی سے انٹر نیشنل ہیٹ ٹرک تک

حوصلے اور جواں مردی کا پیکرفیاض احمد ،تماشائی سے انٹر نیشنل ہیٹ ٹرک تک

عمرشاہین

وطن عزیز کے شمالی علاقہ جات کے مردم خیز خطے مردان سے جہاں پاکستان کرکٹ کو یونس خان سمیت کئی نامور کرکٹر ملے ہیں ، وہیں پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کو بھی کئی با صلاحیت اور با حوصلہ کھلاڑی ملے ہیں جن میں ایک نام فیاض احمد کا بھی ہے ۔ پانچ سال کی عمر میں پولیو سے شدید متاثر ہونے کے بعدان کے دائیں ہاتھ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور عضو معطل بن گیاتاہم بعد میں اس میں کچھ جان آگئی ،چند دن فیاض احمد نے بہت مشکل اور مایوسی میں گزارے ،پھر والدین کی جانب سے حوصلہ افزائی ملنے کے بعدمعمول کی زندگی کی جانب واپس پلٹ آئے ۔ چھوٹی سی عمر میں ہی خود میں اس قدر اعتماد پیداکر لیا کہ لوگ انہیں ڈس ایبلڈ کہتے ہوئے بھی سوچنے لگتے ،مبادا فیاض احمد مشتعل نہ ہو جائیں ،کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق ہونے کے باوجود انہوں نے بارہ سال کی عمر تک کرکٹ نہیں کھیلی تھی کیونکہ ڈس ایبلڈ ہونے کی وجہ سے علاقے کی ٹی میں انہیں اپنی جانب سے چانس نہیں دیا کرتی تھیں ۔ اسکول کے ابتدائی برسوں میں بھی وہ محض تماشائی بن کراسکول کے کرکٹ میچز دیکھا کرتے تھے

پہاڑی علاقے شیر گڑھ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے فیاض خان نا صرف جسمانی طور پر بہت مضبوط تھے بلکہ قدرت نے انہیں ذرخیز ذہن بھی عطا کر رکھا تھا ،یہی وجہ تھی کہ وہ ڈس ایبلڈ ہونے کے باوجود ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا کرتے اور ہمیشہ کامیاب رہتے ۔ ان کے شوق اور بار بار کے اصرارپر ان کے ایک استاد محمد نواز نے انہیں اسکول کی جانب سے پہلا میچ کھیلنے کی اجازت دی تو وہ آٹھویں جماعت میں تھے ۔ اسکول سے انہوں نے نارمل ٹیموں کے خلاف بہت عمدہ کرکٹ کھیلی،اپنے استاد کی جانب سے حوصلہ افزائی بھی ان کے کھیل میں نکھار کا سبب بنی ۔ وہ لیفٹ آرم اسپنر تھے ،گیند کو تیزی کے ساتھ اسپن کرنے کی صلاحیت قدرت نے ان کو خوب خوب عطا کی تھی ،اسی خوبی کی بناپر انہوں نے اپنے اسکول کو کئی میچز جتوائے ۔ رفتہ رفتہ ان کی کرکٹ کے چرچے ہر جانب ہونے لگے ۔ اسکول کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں انہیں لوکل ہیرو کا درجہ مل گیا ۔

فیاض احمد اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ میری منزل نہیں اور یہ کہ مجھے بہت آگے تک جانا ہے ۔ دوردراز کا علاقہ ہونے کی وجہ سے ان کو نیٹ پر بالنگ کے مواقع کم ملتے تھے ،اس صورت حال میں انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنےلیے الگ نیٹ کا بندوبست کیا اور بائیں ہاتھ سے اسپین بالنگ کی مسلسل مشق شروع کر دی اور اپنی اسکلز پر بہت کام کیا ۔ پاکستان میں جب ڈس ایبلڈ کرکٹ کا آغاز ہوا تو انہوں نے پشاور کی جانب سے ٹرائلز دیے اور منتخب ہو گئے ،اپنی لیفٹ آرم اسپین بالنگ سے انہوں نے پہلی ہی چیمپئن شپ میں تمام ٹیموں پراپنی دھاک بٹھادی ،دیکھنے والوں کے ساتھ ساتھ کھیلنے والوں نے بھی ان کی بالنگ کی بہت تعریف کی ،اس کے بعد وہ مسلسل محنت کرتے رہے ،اسی دوران ملائشیا اور سنگا پور کے دورے کے لئے پاکستان ٹیم تشکیل پائی توفیاض احمد کا نام ریزرو کھلاڑیوں میں تھا ،اور وہ اس پر بھی بہت مسرور تھے ۔

لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ،ڈسپلن کی خلاف ورزی پر قومی ٹیم میں جگہ بنانے والے ایک لیگ اسپنر کو ڈراپ کر کے فیاض احمد کو آخری لمحات میں اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ۔ اس وقت ان کی خوشی دیدنی تھی ،انہوں نے تہیہ کیا کہ وہ ملنے والے اس موقع کو ہرگز ضائع نہیں کریں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ ۔ پاکستان کرکٹ کے بہترین کوچ صبیح اظہر نے بھی ان کی بالنگ صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کےلیے ان کے ساتھ بہت کام کیا اور محنت کی ۔ ،اپنے پہلے ہی انٹر نیشنل ٹور میں وہ بیسٹ بالر رہے جہاں انہوں نے پانچ میچوں میں 14وکٹیں حاصل کیں ،گو کہ یہ کامیابی فیاض احمد کی امیدوں سے بہت زیادہ تھی لیکن کاتب تقریر نے ابھی ان کے لئے آگے اس سے بھی بڑی کامیابی لکھ رکھی تھی ۔ انہوں نے پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کی جانب سے مزید بین الاقوامی ٹورنامنٹس اور میچز کھیلے اور ایک ایسا ریکارڈ بنا ڈالا جو قیامت تک ان کے پاس ہی رہے گا ۔

بنگلہ دیش کے پانچ ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ میں انہوں نے روایتی حریف بھارت کے خلاف میچ میں شاندار ہیٹ ٹرک اسکور کر کے پاکستان کو یادگار کامیابی دلوائی ،وہ انٹر نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دنیا کے پہلے بالر بھی ہیں ،انہوں نے اس میچ میں 14رنز دے کر چار وکٹیں لی تھیں ۔ یہ ان کی زندگی کا یادگار میچ تھا ۔ ’’بھارت کے خلاف میچ کھیلنا ہی کسی بھی پاکستانی کرکٹر کے لئے بہت اعزاز کی بات ہوتی ہے ‘‘ ۔ فیاض احمد نے پر جوش لہجے میں بتایا ۔ ’’ میں نے نا صرف میچ کھیلا بلکہ اس میں ہیٹ ٹرک بھی اسکور کی ،تو آپ میری خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے ،اس پرفارمنس کی یادیں آج بھی مجھ میں نیا جوش و خروش اور ولولہ پیدا کر دیتی ہیں ،یہ لطف وہی محسوس کر سکتا ہے جو گراءونڈ میں موجود رہا ہو ‘‘ ۔ اس شاندار پرفارمنس کے بعد پاکستان واپسی پر فیاض احمد کی نا صرف کراچی ائیر پورٹ پر بلکہ اپنے علاقے میں بھی شاندار پزیرائی ہوئی جس نے ان کی قدرومنزلت میں مزید اضافہ کیا ۔

اپنی کامیابیوں میں وہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کو بھی برابری کا حصہ دار سمجھتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ پی ڈی سی اے کے سلیم کریم اور امیرالدین انصاری کو خدائے بزرگ و برتر مزید استقامت دے تاکہ ڈس ایبلڈ کرکٹ بلندی کی جانب سفر جاری رکھے ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *