حیدرآباد سے سکھر تک ڈس ایبلٹی کرکٹ کے فروغ میں کوشاں اقبال ملک

حیدرآباد سے سکھر تک ڈس ایبلٹی کرکٹ کے فروغ میں کوشاں اقبال ملک

پاکستان کے صوبہ سندھ میں حیدرآباد کو وہی حیثیت حاصل ہے جو پنجاب میں لاہور کے ہوتے ہوئے فیصل آباد کو ہے ،زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں کراچی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کے لوگوں کی خدمات کو بھی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ،کھیلوں کے حوالے سے بھی اسی قسم کی صورت حال ہے ،حیدرآباد نے پاکستان کو کرکٹ سمیت تمام کھیلوں میں با صلاحیت کھلاڑی ہر دور میں دئیے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ڈس ایبلڈ کرکٹ کی بات کی جائے تو پاکستان میں اس طرز کی کرکٹ کے آغاز سے ہی حیدرآباد ریجن کا قیام عمل میں آگیا تھا اور اس نے پہلی نیشنل ڈس ایبلٹی کرکٹ چیمپئن شپ میں بھر پور شرکت بھی کی تھی ۔ سندھ کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ اقبال ملک روز اولین سے ہی حیدرآباد ریجن سنبھالے ہوئے ہیں ،یہ ان کی کاوشیں اور مسلسل محنت ہی ہے کہ حیدرآباد ریجن سے نا صرف با صلاحیت ڈس ایبلڈ کرکٹرز مسلسل سامنے آرہے ہیں بلکہ پاکستان کی سبز جرسی اور کوٹ بھی پہن چکے ہیں ۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے اقبال ملک نے اپنی تمام تر کرکٹ اسی شہر اور ریجن کی جانب سے کھیلی ہے ،وہ اسکول کرکٹ سے لے کر کالج ،یونیورسٹی ،پی سی بی انڈر19اور پھر فرسٹ کلاس کرکٹ کا سفر’’سرمئی شاموں والے دلفریب شہر ‘‘ حیدرآباد سے ہی کرتے رہے ہیں اور اب اسی شہر کو کرکٹ میں کچھ واپس کرنے کی غرض سے اسی کھیل سے وابستہ ہیں اور کئی برسوں سے ہیں ۔ پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کر کٹ ایسوسی ایشن نے حیدرآباد میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کے فروغ کے لئے جو ذمہ داریا ں اقبال ملک کو تفویض کی تھیں انہوں نے اسے بخوبی نبھایا اور آج تک نبھا رہے ہیں ۔ ’’ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ قدرت نے مجھے اس کام کے لئے منتخب کیا ‘‘ ۔ اقبال ملک نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔ ’’ میں حیدرآباد کے کرکٹ سرکٹ سے برسوں سے واقف ہوں اور نا صرف حیدرآباد بلکہ ٹنڈو آدم شکار پور سے لے کر سکھر تک کے اسپورٹس حلقوں پر میری گہری نظر رہا کرتی ہے ،شاید اسی لئے میرا انتخاب ہوا کہ میں ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو تلاش کروں اور ان کی دعائیں سمیٹوں ‘‘ ۔

’ابتدا میں یہ بہت مشکل کام لگتا تھا اور مجھے ہر ہفتہ دو سے تین بار حیدرآباد سے دیگر اضلاع میں ڈس ایبلٹی کے حامل لڑکوں کو دیکھنے جانا پڑتا تھا ‘‘ ۔ اقبال ملک نے پرجوش انداز میں بتانا شروع کیا ۔ ’’آپ جانتے ہیں ہیں کہ جب کوئی نیا اور اچھوتا کام شروع کیا جاتا ہے تو اس کا جوش وخروش الگ ہی ہوتا ہے اور اس کام کو انجام دینے میں ہر قسم کی مشکلات کا سامنا خوش دلی سے کیا جاتا ہے ،سو ڈس ایبلٹی کرکٹ کے آغاز میں مجھ سمیت حیدرآباد میں کام کرنے والے میرے دیگر ساتھیوں کا بھی اسی طرح کا جوش و خروش تھا اور ہم خوش دلی سے اپنا کام کرتے رہے ۔ حیدرآباد سے سکھر تک جہاں جہاں ہمارے رابطے تھے ہم نے ڈس ایبلٹی کے حامل لڑکوں کو تلاش کیا ،ان کے گھر والوں سے بات کی ،ان کی میدان میں ٹریننگ کی ،انہیں اچھے سے اچھے گراءونڈز میں کھیلنے کی ترغیب دی ،مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب گاءوں دیہات کے لڑکے اچھے گراءونڈز میں کھیلتے ہیں اور وہ ڈریسنگ رومز شیئر کرتے ہیں جو پاکستان کے نامور کرکٹرز نے کئے ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کی چہروں کی خوشی اور اندرونی مسرت مجھے میری تمام کوششوں کا ثمر عطا کردیا کرتی ہے ‘‘ ۔

حیدرآباد کے حمزہ حمید پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کی جانب سے انٹر نیشنل کرکٹ کھیل چکے ہیں اور وہ اس وقت حیدرآباد کے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر آپ میں صلاحیت ہے تو آپ اپنی جسمانی معذوری کے ساتھ بھی پاکستان کے لئے کھیل سکتے ہیں ۔ اس حوالے سے بتاتے ہوئے اقبال ملک کہتے ہیں ۔ ’’حمزہ حمید جارح مزاج بیٹر ہیں اور ٹی20کرکٹ فارمیٹ کے لئے بہت موزوں بھی ۔ وہ حیدرآباد کی موجودہ ٹیم کی بیٹنگ کے ستون ہیں ،ان کے علاوہ اس وقت حیدرآباد میں نعمان،راجن اور حمید بھی بہت با صلاحیت کرکٹرز ہیں جن سے بہت امیدیں وابستہ ہیں ،اہم بات یہ ہے کہ ابھی ان لڑکوں نے ا سٹارٹ لیا ہے ،ان کے علاوہ حیدرآباد سے کئی با صلاحیت کرکٹرز کھیل چکے ہیں ،ہماری پہلی کوشش ہوتی ہے کہ ہم کھلاڑیوں کے ذہن سے اس بات کو نکالیں کہ وہ معذور ہیں ،جب کھلاڑی کو اس بات کا یقین آجاتا ہے کہ وہ ڈس ایبلڈ نہیں ہے تب اس کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں ،آج یہ صورت حال ہے کہ حیدرآباد سے سکھر تک کہیں بھی کوئی ڈس ایبلڈ لڑکا کرکٹ کھیلنا شروع کرتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ میں اعلیٰ سطح پر بھی کھیل سکتا ہوں اور وہ فوری طور پر ٹرائلز کے لئے ہم سے رابطہ کرتا ہے ،یہی پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کی اور ہم سب کی کامیا بی ہے ‘‘ ۔

’’ پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن نے اپنے قیام سے لے کر آج تک درست سمت میں کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے کئی نیشنل ایونٹس کا کامیابی سے انعقاد کیا اور انٹر نیشنل سیریز کی بھی بھر پور میزبانی کی ‘‘ ۔ اقبال ملک کہتے رہے ۔ ’’ میں اس بات کا بھی گواہ ہوں کہ ڈس ایبلڈ کرکٹرز پی پی ڈی سی اے کے سلیم کریم اور امیر الدین انصاری کو کس قدر چاہتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں ،کوویڈ19 کی بد ترین صورت حال میں بھی پی پی ڈی سی اے نے اپنے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو فراموش نہیں کیا اور ان کی سپورٹ کی ۔ ان کی اپنے کرکٹرز سے دلی محبت ہی اس ایسوسی ایشن کو کامیابی کی نئی منازل کی جانب لے جارہی ہے وگرنہ میں نے اپنی زندگی میں دکھی انسانیت کے نام پر بننے والے بڑے سے بڑے اداروں کو ’’خود غرضی ‘‘ برتنے پر دنوں میں تباہ ہوتے دیکھا ہے ،میرے ریجن حیدرآباد کے تمام ڈس ایبلڈ کرکٹرز اور میرے ساتھیوں کی نیک خواہشات پی پی ڈٖی سی اے کے ساتھ پہلے روز کی طرح آج بھی ہیں مجھے امید واثق ہے کہ یہ ادارہ مستقبل میں بھی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا ۔ ‘‘

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *