سنگلاخ پہاڑوں کا بیٹا عبداللہ ،کرکٹ کے میدان میں بھی سب سے آگے

سنگلاخ پہاڑوں کا بیٹا عبداللہ ،کرکٹ کے میدان میں بھی سب سے آگے

عمرشاہین

سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین وادی بولان نے کئی حوصلہ مند جوانوں کو جنم دیا جنہوں نے اپنے عزم و استقلال سے داستانیں رقم کیں اور تاریخ کے اوراق میں آج بھی زندہ ہیں ،اسی وادی بولان کے شہر کوءٹہ کے ڈس ایبلڈ کرکٹر عبداللہ نے بھی جواں مردی اور استقامت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی جسمانی کمی کو پش پست ڈال کر نارمل انسانوں کی طرح زندگی اور اس کی مشکلات کا سامنا کیا،انہوں نے نا صرف کرکٹ ایسے مشکل کھیل کو اپنےلیے آسان بنایا بلکہ ہر اس چیلنج کا بھی سامنا کیا جو اس کھیل میں ہر ایک کےلیے کبھی نہ کبھی نا ممکن بنا جایا کرتا ہے ۔ اپنے دل میں فاسٹ بالر بننے کا جذبہ لیے کم عمری میں ہی انہوں نے علاقے میں اپنی فاسٹ بالنگ سے دھوم مچادی تھی ،یہی وجہ تھی کہ وہ نا صرف چھٹی کلاس کی عمر میں اسکول کی ٹیم میں شامل کر لئے گئے بلکہ انہوں نے مسلسل تین سال اپنے اسکول کی ٹیم کی قیادت بھی کی ۔

اپنی ابتدائی کرکٹ سے ہی پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم کی کاپی کرنے والے عبداللہ کا بالنگ ایکشن بھی وسیم اکرم سے ملتا جلتاہے اور وہ ان ہی کی طرح گیند کو دونوں جانب سوئنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ ان کا دایاں ہاتھ کم عمری میں پولیو کا شکار ہونے کے بعد بے کار ہو گیا تھا انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے آئیڈیل وسیم اکرم جیسا بننے کےلیے مسلسل سخت محنت کی ۔ وہ کرکٹ کے میدان میں وسیم اکرم جیسا بن کر رہنا پسند کرتے ہیں ۔ ’’ میں بچپن سے لے کر آج تک کرکٹ کے حوالے سے وسیم اکرم کے حصار سے باہر نہیں آسکا ‘‘ ۔ عبداللہ نے بتایا ،’’ گو کہ میری بیٹنگ کم آتی ہے ،پھر بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ میں وسیم اکرم کی طرح وکٹیں چھوڑ کر زوردار چھکے لگاءوں اور وہ رنز کروں جو میری ٹیم کے کام آئیں ‘‘ ۔

پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے آغاز سے قبل عبداللہ خان نارمل ٹیموں جا نب سے اچھی کرکٹ کھیل رہے تھے ۔ اپنے اونچے لمبے قداور مضبوط جسامت کے باعث مخالف ٹیموں پر ان کی دھاک میچ شروع ہونے سے پہلے ہی بیٹھ جایا کرتی تھی ۔ پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے آغاز پربلوچستان کی ٹیم کے انتخاب کے لئے ٹرائلز ہوئے تو عبداللہ کونا صرف فاسٹ بالر منتخب کر لیا گیا بلکہ وہ بلوچستان کی ٹیم کے پہلے کپتان بھی بنے ۔ ان کی قیادت میں بلوچستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم نے پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ میں شرکت کی جس میں عبداللہ کی کارکردگی نمایاں رہی تھی ۔ ملائشیا اور سنگا پور کے دورے کے لئے جب پہلی قومی ڈس ایبلڈ ٹیم تشکیل دی جا رہی تھی اس میں بھی عبداللہ کا انتخاب ہوا ۔ ان کو اس دورے میں پاکستان کا بیسٹ فیلڈر بھی قرار دیا گیا تھا جو پہلے دورے کے لحاظ سے ان کی بہت بڑی کامیابی تھی ۔

پاکستان اور انگلینڈ کی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیموں کے درمیان دبئی میں پہلی کرکٹ سیریز کھیلی گئی تو عبداللہ نے پہلے انٹر نیشنل میچ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور ڈس ایبلڈ کرکٹ میں پہلی وکٹ لینے کا اعزاز حاصل کیا ۔ ’’ میں بہت خوش ہوں کہ یہ اعزازمیرے پاس ہے اور تا قیامت کوئی مجھ سے یہ اعزاز نہیں لے سکتا ‘‘ ۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’ یہ اعزاز میری زندگی کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی بھی ہے اور میں اس پر پی ڈی سی اے کے سلیم کریم اور امیر الدین انصاری کا از حد مشکور ہوں کہ ان کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ،اسلیے کہ مجھے کوءٹہ میں جو قدرومنزلت ملی وہ ڈس ایبلڈ کرکٹ کی مرہون منت ہے،اس سے قبل میں کتنا ہی اچھا کیوں نہ کھیلتا کوئی میری تعریف نہیں کرتا تھا اور ہمیشہ زبردستی کی ہمدردی اور دکھاوے کی حوصلہ افزائی ملا کرتی تھی جس پر میں اکثردلبرداشتہ ہو جایا کرتاتھا ‘‘ ۔

ایک سکیورٹی کمپنی میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے والے عبداللہ کو بھی کرکٹ کے اولین برسوں میں لوگوں کی حقارت بھری نظروں کا سامنا کرنا پڑا تھا ،کئی لوگوں کا رویہ اور ان کی باتیں انہیں آج بھی یاد ہیں ۔ ’’ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ آپ میں مزید حوصلہ پیدا کرتے ہیں ‘‘ ۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ آج وہی لوگ میرے کھیل کے معترف ہیں اور میرا میچ دیکھنے کے لئے آتے ہیں ،ساتھ تصاویر بنواتے ہیں ،کیونکہ میں نے ان کے شہر کی انٹر نیشنل کرکٹ میں نمائندگی کر کے ان کے مان میں اضافہ کیا ہے ‘‘ ۔

عبداللہ کے کرکٹ کیرئیر میں جن لوگوں نے اس کا بھر پور ساتھ دیا اور قدم قدم پر ان کی حوصلہ افزائی کی ان میں ان کے والدین کے علاوہ عبدالستار اچکزئی ،گلفام بھائی ،عاقل بلوچ ،اسلم شیخ ،محمد اسلم خان اور ان کے بھائی بھی شامل ہیں ۔ اسکول کے زمانے میں عبداللہ خان گھر والوں سے چھپ کر کرکٹ کھیلا کرتے تھے کیونکہ ان کے والدین ان کے ہاتھ کی وجہ سے ان کے کرکٹ کھیلنے کے خلاف تھے تاہم جب ان کے کھیل کے بارے میں انہیں علم ہوا تو انہوں نے مخالفت ترک کر دی ۔ عبداللہ خان متعدد نیشنل چیمپئن شپس اور ٹورنامنٹس میں بہترین بالر اور بہترین فیلڈر بھی قرار دیے جا چکے ہیں جبکہ موقع ملنے پر اپنی جارحانہ بیٹنگ کے جوہر بھی دکھا چکے ہیں ۔ عبداللہ جیسے فاسٹ بالر اور عمدہ کرکٹ مائنڈ کے حامل کرکٹر آج بھی پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کا سرمایہ ہیں ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *