لاہور میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کے سمبل اور وقار کی علامت :جاوید اشرف

لاہور میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کے سمبل اور وقار کی علامت :جاوید اشرف

تمام شعبہ ہائے زندگی میں کسی بھی بڑے او ر نیک مقصد کی کامیابی کی جانب پہلا کامیاب قدم اس مقصد کے لئے بہترین لوگوں کا انتخاب ہوتا ہے جو اس مقصد کی افادیت اور اس کی بنیادی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں تاکہ منزل تک رسائی کے تمام مراحل کو احسن انداز سے مکمل کیا جا سکے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس طرز عمل سے چند افراد نے بھی باہمی ذہنی ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ کام کیا تو کامیابی نے ان کے قدم چومے ،پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کسوٹی پر پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن پورا اترتی ہے جس نے ہر کام کے لئے ،خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ،پروفیشنل اور کرکٹ سے وابستہ لوگوں ہی کی خدمات حاصل کیں تاکہ ان کی متعین کردہ منزل کے حوالے سے مقررہ اہداف ہموار انداز میں حاصل کئے جائیں اور یہ کہ کسی بھی طرح ،کسی بھی جگہ کوئی کمی واقع نہ ہو جس سے کسی کی دل شکنی ہو یا وقتی ناکامی سے کوئی مایوس ہو ،یہ بھی پی ڈی سی اے کی بہترین پالیسی ہی تھی کہ اس نے لاہور ریجن کی تشکیل کے لئے جاوید اشرف کا انتخاب کیا جو کرکٹ کے حوالے سے ایک معروف اور قابل احترام نام تھا ۔

جاوید اشرف پاکستان میں فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کی تشکیل کے وقت سے ہی سلیم کریم اور امیر الدین انصاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں اس طرح اگر انہیں پی پی ڈی سی اے کی فاءونڈر ٹیم کا اہم ممبر قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ لاہور میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کا سمبل بننے سے قبل جاوید اشرف نے بھر پور کرکٹ کھیلی اور پھر امپائرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہو گئے اور یہاں بھی خوب نام اور عزت کمائی ۔ ’’دراصل کرکٹ سے متعلق لوگوں کو ہی ساتھ لے کر چلنا پی پی ڈی سی اے کی کامیابی کی کلید ہے ‘‘ ۔ جاوید اشرف نے فخریہ لہجے میں کہنا شروع کیا ۔ ’’ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ لاہور میں اس طرز کرکٹ کی بنیاد رکھنے کے لئے سلیم کریم اور امیرالدین انصاری صاحب نے میرا انتخاب کیا ،میرا فیملی بیک گراءونڈ اسپورٹس کا ہے ،میرے بھائی نعیم اشرف پاکستان کی جانب سے ون ڈے انٹر نیشنل کھیل چکے ہیں جبکہ میں نے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے ،کرکٹ کی باریکیوں سے بخوبی واقف بھی ہوں اس لئے بھی ہ میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کے فروغ کے لئے کام کرنا بہت دل چسپ لگا اور جی جان سے اس کے لئے لاہور اور گردونواح کے علاقوں میں کام کیا اور ابھی تک کر رہا ہوں ‘‘ ۔

’’یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ڈس ایبلڈ کھلاڑیوں کی بے بسی اور محرومی کو دیکھتے ہوئے ہی سلیم کریم اور امیر الدین انصاری نے پاکستان میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کا پودا لگایا تھا جو کہ اب ایک ’’تن آور ‘‘ درخت بن چکا ہے ۔ یہ ان کا خواب بھی تھا کہ پاکستان میں جسمانی معذوری کے حامل افراد کو کرکٹ کھیلنے کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم مل سکے جہاں سے وہ اپنی کرکٹ کی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکیں ‘‘ ۔ جاوید اشرف کہتے رہے ۔ ’’ میں سمجھتاہوں کہ سلیم کریم کے خواب کو امیرلدین نے عملی جامہ پہنایا اور ان کی ٹیم نے اس کرکٹ کو پاکستان بھر میں فروغ دینے میں دن رات ایک کیا ۔ ان کی بھر پور اور مستقل محنت سے ہی پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن آج پاکستان کرکٹ کے بعد کرکٹ کا سب سے کامیاب اور قابل اعتماد ادارہ بن کر کام کر رہا ہے ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا اور اپنے قیام کے چند عرصہ بعد ہی پی پی ڈی سی اے کو الحاق دے دیا جو اس کا صدق دل سے کی گئی کاوشوں کا ثمر بھی تھا ‘‘ ۔

جاوید اشرف گزشتہ28برس سے پاکستان کرکٹ بورڈ سے بطور ایک معتبر امپائروابستہ ہیں ،وہ انٹر نیشنل میچوں میں بھی امپائرنگ کر چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسو سی ایشن کے سیکریٹری امیرا لدین سے دوستانہ اور گہرے تعلقات بنے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید خوشگوار اور مضبوط بھی ہو رہے ہیں ۔ اس حوالے سے جاوید اشرف کہتے ہیں کہ ’’ میں نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں سے ڈس ایبلٹی کرکٹ کے لئے وقت نکالنا اس لئے بھی قبول کیا تھا کہ اس مقصد کے پیچھے میرے دیکھے بھالے لوگ تھے جن کو میں برسوں سے جانتا تھا اور یہی چیز بہترین ’’ورکنگ ریلیشن ‘‘ کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود کہ پی پی ڈی سی اے نے ڈس ایبلٹی کرکٹ کے فروغ کے لئے پہلے اسلام آباد میں میچز کھیلے ،میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے اپنے ڈس ایبلڈلرکٹرز کے لئے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا پہلا دورہ ارینج کیا تاکہ ان کرکٹرز میں ایک احساس تفاخر پیدا ہو کہ اب وہ اپنی محرومیوں کو بھول کر اعلیٰ معیار کی کرکٹ کھیلنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں ‘‘ ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *