ناکامیوں کے بھنور سے ابھرنے والا ڈس ایبلڈ کرکٹ اسٹار اقبال حسین

ناکامیوں کے بھنور سے ابھرنے والا ڈس ایبلڈ کرکٹ اسٹار اقبال حسین

عمرشاہین

اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنالینے کا ہنر ہر ایک کو نہیں آتا ،یہ ایک ایسا وصف جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے ۔ کسی نارمل صحتمند انسان کی نسبت اس ہنر میں وہ لوگ ہی ماہر ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی نقص یا بیماری کی وجہ سے ڈس ایبلڈ ہو جاتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمت نہیں ہارتے اور خود کو نارمل انسانوں سے زیادہ محنت پر آمادہ کرکے ان سے زیادہ کامیابی سمیٹتے ہیں ۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے،ایسے ہی ایک نوجوان کرکٹر اقبال حسین ہیں جو پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ سے معذور اقبال حسین عزم و حوصلے کی جیتی جاگتی مثال ہیں جن کو کم عمری میں کوئی بھی اپنے ساتھ کرکٹ کھلانے کو تیار نہیں تھا ۔ ان کے ذہن میں بس ایک ہی بات تھی کہ جب سابق ٹیسٹ کرکٹرعظیم حفیظ میری طرح ایک ہاتھ سے ڈس ایبلڈ ہونے کے باوجود پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتے ہیں تو میں بھی اچھی کرکٹ کھیل سکتا ہوں ۔ یہی بات ان کے جنون کا باعث بنی اور انہوں نے ناکامیوں کے بھنور میں پھنس کر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑا کہ انہیں یقین کامل تھا کہ وہ بہت اچھی کرکٹ کھیل سکتے ہیں ۔

چند سال قبل تک کراچی کے دوردراز کے علاقے اورنگی ٹاءون میں ویسے بھی ٹی میں کم ہی بناکرتی تھیں ،اقبال حسین کئی سال تک مقامی ٹیموں کے کپتانوں کی منت سماجت کرتے رہے کہ مجھے اپنی ٹیم میں شامل کرلیں ، لیکن ان کی جسمانی کمی کے باعث کوئی بھی انہیں کرکٹ کھلانے پر آمادہ نہیں ہوتا تھابلکہ ان کو ڈس ایبلڈ قرار دے کر حوصلہ شکنی کی جاتی تھی ۔ بالآخر اورنگی اسٹار کی تشکیل کے بعد اس کے کپتان ممتاز بھائی اور شریف بھائی نے انہیں اپنی جانب سے مستقل کھلایاجبکہ وسیم بھائی نے ان کا قدم قدم پر ساتھ دیا جس پر اقبال حسین انہیں اپنی کرکٹ کا محسن مانتے ہیں ۔

نارمل کرکٹرز کے ساتھ کھیل کر اقبال حسین کا حوصلہ مزید بلند ہوا اور انہوں نے ہر میچ میں پہلے سے بہتر کھیل پیش کرنا شروع کر دیا، رفتہ رفتہ وہ اورنگی اسٹار کےلیے ناگزیر ہوگئے ان کے بغیر ٹیم مکمل نہیں ہو تی تھی ۔ بی کام تک تعلیم حاصل کرنے والے اقبال حسین بتاتے ہیں کہ ’’میری ابتدائی کرکٹ مایوسی کا شکار رہی ،میری کوئی بات نہیں سنتا تھا ، میں کرکٹ کھیلنے کےلیے ترس جایا کرتا تھا ،اس کے باوجود کہ اورنگی اسٹار نے میرے شوق کی تسکین میں بہت مدد کی لیکن میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا وجود نہ ہوتا تو میں اورنگی ٹاءون میں عام کرکٹر کی حیثیت سے ہی کھیل رہا ہوتا ‘‘ ۔ اقبال حسین دائیں ہاتھ سے لیگ اسپن بالنگ کرتے ہیں ان کی گھومتی ہوئی گیندوں کو کھیلنا دشوار ہوتا ہے ۔

جب پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا آغاز ہوا تو اقبال حسین نے کراچی کی ٹیم کےلیے ٹرائلز دیے اور منتخب کر لئے گئے جس کے بعد ان میں مزید اعتماد پیدا ہوا ۔ انہوں نے نا صرف کراچی بلکہ لاہور اور دبئی کے گراءونڈز پر بھی عمدہ کارکردگی دکھائی ہے ۔ اقبال حسین نے پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے اب تک ہونے والے تمام نیشنل کرکٹ ٹورنامنٹس اور چیمپئن شپس کھیلی ہیں ۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاءون میں وہ کافی معروف ہیں ۔ ڈس ایبلڈ ہونے کے باوجود اب لوگ ان کے کھیل اور پاکستان کی نمائندگی کرنے کے سبب ان کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ اورنگی ٹاءون کا کوئی بھی اسپورٹس فنکشن اب اقبال حسین کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ،اس عزت افزائی پر اقبال حسین پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم اور سیکریٹری امیر الدین انصاری کے بہت مشکور ہیں ۔

اقبال حسین پاکستان کی جانب سے انٹر نیشنل کرکٹ بھی کھیل چکے ہیں ،انہوں نے افغانستان اور انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی نمائندگی کی اور اپنی اسپن بالنگ سے پاکستان کو کامیابیاں دلوائیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’مجھے فخر ہے کہ میں نے پاکستان کی جانب سے جو بھی انٹر نیشنل میچز کھیلے ہیں اس میں پاکستان کو شکست نہیں ہوئی ‘‘ ۔ نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ میں بھی اقبال حسین کی بالنگ کا جادو خوب چلتا ہے اور انہیں مشکل صورت حال کا بالر قرار دیا جاتا ہے ،جب گیندیں زیادہ اور اسکور کم ہو وہ مخالف ٹیم پر حاوی ہو جاتے ہیں ۔ وہ میچ کے دوران بریک تھرو دلانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں ،انہوں نے کئی میچز آخری لمحات میں صرف اپنی نپی تلی بالنگ کی وجہ سے کراچی کو جتوائے ہیں جس پر وہ بجا طور پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں ۔

انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد وطن واپسی پر اپنے علاقے میں ہونے والا استقبال اقبال حسین کی زندگی کی سب سے بہترین اور خوشگوار یاد ہے ۔ ’’ مجھے یقین نہیں تھا کہ میرا اس طرح استقبال ہوگا ‘‘ ۔ اقبال حسین نے بتایا ۔ ’’ میں سمجھ رہا تھا کہ کراچی ائیر پورٹ پر جو لوگ پاکستان ٹیم کے استقبال کے لئے آئے ہیں بس یہی سب کچھ ہے ،گو کہ ائیر پورٹ پر بھی ہماری خوب پذیرائی ہوئی لیکن جب میں اپنے علاقے میں پہنچا تو نا صرف میرا گھر بلکہ پوری گلی سجائی گئی تھی ،مجھے پھولوں کے ہار سے لاددیا گیا ،اور کندھوں پر اٹھا کر گھر لایا گیا،اس طرح کا استقبال میرےلیے کسی سرپرائز سے کم نہ تھا ۔ اس عزت افزائی کا سہرا میں پی ڈی سی اے کے سر باندھتا ہوں جس نے اورنگی ٹاءون کے ایک ڈس ایبلڈ کرکٹر کو اٹھا کر انٹر نیشنل کرکٹ کھلا دی ۔ میرےلیے تو یہ سب آج بھی کسی خواب جیسا ہے ‘‘ ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *