پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹرز سے روحانی تعلق رکھنے والے محمد نظام (دوسرا حصہ )

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹرز سے روحانی تعلق رکھنے والے محمد نظام (دوسرا حصہ )

عمر شاہین

’’آخرکاروہ دن بھی آگیا جب ہم نے نا صرف کراچی بلکہ پاکستان اور دنیا کی پہلی فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ٹیم کی تشکیل کے لئے ٹرائلز کا اعلان کیا ‘‘ ۔ محمد نظام نے ایک بار پھر بتانا شروع کیا ۔ ’’ ان ٹرائلز کے لئے ہم نے تمام اخبارات میں خبریں شاءع کروائیں اور کراچی بھر میں موجود اپنے بہی خواہوں ،سابق کرکٹرز اور دوستوں ساتھیوں سے بھی کہہ رکھا تھا کہ اگر ان کی نظر میں کوئی فزیکل ڈس ایبلٹی کا حامل کرکٹر ہوتو اسے لازمی ٹرائلز میں شرکت کے لئے بھیجیں ۔ ٹرائلز کے لئے سابق ٹیسٹ فاسٹ بالر سلیم جعفر کو زحمت دی گئی تھی کہ وہ میرٹ پر کھلاڑیوں کا انتخاب کریں گے ،مقررہ وقت تک صرف تین ڈس ایبلڈ کھلاڑی ٹرائلز دینے کے لئے نیشنل اسٹیڈیم میں موجود تھے ،یہ مایوس کن صورت حال تھی لیکن امیر بھائی نے کہا کہ کچھ وقت مزید دیکھتے ہیں ۔ ایک گھنٹہ گزر جانے پر مزید تین کھلاڑیوں کا اضافہ ہوا اور اب تعداد چھ ہو گئی تھی ۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہم نے سوچا کہ یہ بہت مشکل کام ہے ،ٹیم نہیں بن سکتی ،ابھی ٹرائلز ختم کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دور سے مزید چار کھلاڑی آتے نظر پڑے ،کچھ جان میں جان اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی ۔ کچھ دیر بعد مزید دو کھلاڑی آگئے اور اب تعداد12ہو گئی تھی مطلب یہ کہ کم از کم ایک ٹیم تشکیل دی جا سکتی تھی ‘‘ ۔

’’ہمارے چیف سلیکٹرسلیم جعفر نے ان تمام12کھلاڑیوں کو نیٹ پر دیکھا اور ان کے حوصلے ،عزم اور کھیل کی تعریف بھی کی ‘‘ ۔ محمد نظام کا لہجہ مزید پر جوش ہو گیا ۔ ’’ دل چسپ اور سب سے مزے دار بات یہ تھی کہ ان تمام12کھلاڑیوں میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو کسی بھی ٹیم کی تشکیل کے لئے ضروری ہوتی ہیں ،ان میں راءٹ آرم اور لیفٹ آرم فاسٹ بالرز کے ساتھ ساتھ نیا گیند کھیلنے والے بیٹرز ،مڈل آرڈر بیٹرز،وکٹ کیپر ،آف اسپنر ،لیفٹ آرم اسپنر ،لیگ اسپنر اور سلو آرتھوڈوکس بالرز بھی موجود تھے ۔ کچھ بالرز زوردار ہٹس بھی لگا لیتے تھے گویا کہ آل راءونڈرز بھی مل گئے تھے ۔ ان کھلاڑیوں کی یہ خصوصیات دیکھ کر ہ میں مزید حوصلہ ہوا ۔ ہ میں لگا کہ ہم یہ کام کر سکتے ہیں ،میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن میرے ساتھ ساتھ سلیم کریم صاحب اور امیر بھائی کی خوشی بھی دیدنی تھی ،ٹرائلز پر کھلاڑیوں کے نا آنے کی وجہ سے کچھ دیر قبل جو مایوسی ہم پر طاری تھی اور ہم دل گرفتہ ہو رہے تھے وہ تمام احساسات اب خوشی میں تبدیل ہو گئے تھے ۔ سلیم کریم صاحب نے بھی نیٹ پر اپنی کرکٹ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے تھے ۔ ٹرائلز پر آنے والے کھلاڑیوں کی آءو بھگت اورن کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی سلیم کریم صاحب اور امیر بھائی پیش پیش تھے ‘‘ ۔

’’اسی ٹرائلز میں بیساکھی پر گیند کرنے والے فرحان بھی آئے تھے جو ہم سب کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے تھے ،وہ بہت جوش کے ساتھ قدرے تیز بالنگ کر رہے تھے ‘‘عمران خان کو جوانی میں نیٹ پر بالنگ کرتا دیکھنے والے محمد نظام گویا ہوئے ۔ ’’سلیم جعفر بھی ان سے بہت متاثر نظر آرہے تھے ۔ انہوں نے کوئی نصف گھنٹہ سے بھی زیادہ مسلسل بالنگ کی ۔ میں ان کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ وہ اتنی دیر سے بالنگ کر رہے ہیں کچھ آرام کر لیں تو انہوں نے کہا کہ’’ پہلی بار نیٹ پر بالنگ کرنے کا موقع ملا ہے ،مجھے بالنگ کرنے دیں ، میں تھکا نہیں ہوں ،مجھے تو بالنگ میں بہت مزا آرہا ہے ۔ پہلی بار اپنے آپ کو پرکھ رہا ہوں ،آج تک ایسا موقع نہیں ملا تھا کہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے درمیان اپنی بالنگ کی صلاحیتوں کا اظہار کر وں ‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ بھر بالنگ میں مصروف ہو گئے ،مجھے یاد ہے ٹرائلز پر موجود فوٹو گرافرز اور چینلز کے کیمرہ مینوں نے بیساکھی کی مدد سے کی جانے والی بالنگ کی متعدد زاویوں سے تصاویر لیں ،کئی اینگلز سے ان کے بالنگ ایکشن کو شوٹ کیا ،ناصرف ان سے بات چیت کی بلکہ تمام کھلاڑیوں سے بھی گفتگو کی ۔ یہ سب دیکھ کر سلیم کریم صاحب ،امیر بھائی اور خود میری آنکھوں میں بھی کئی بار آنسو آگئے تھے ۔ بار بار دل میں یہ خیال آتا تھا کہ ہم یہ کیسا کام کرنے جا رہے ہیں جس میں ہ میں بار بار جذباتی ہونا پڑے گا اور یہ کہ آنسو بھی بہانا پڑیں گے ‘‘ ۔

’’لیکن کیا معلوم تھا کہ یہ جذباتی پن ،آنسوءوں کی جھڑی ،ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی معصوم خوشی،نیشنل اسٹیڈیم میں آکر ٹرائلز دینے کا جوش وخروش ،اپنے ساتھ آنے والے فیملی ممبرز کے سامنے اپنی پذیرائی ،نیٹ پر بیٹنگ بالنگ کرتے ہوئے ان کے حوصلے کو دیکھنا ،یہ سب اب ہ میں مستقل کرنا تھا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ہ میں اب مستقل طور پر ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے لئے کسی ’’ماں ‘‘ کا کردار کرنا تھا جو اپنے بچوں کو حد سے زیادہ حفاظت سے ساتھ لے کر چلتی ہے اور ان کی نگہداشت اس طرح کرتی ہے گو یا کہ اس میں اس کی جان ہو ۔ اسی طرح اب ہماری جان ان 12کھلاڑیوں میں تھی ‘‘ ۔ محمد نظام جذباتی انداز میں بولتے رہے ۔ ’’ جب ہم فرصت کے لمحات میں ا ن سے باتیں کرتے تھے تو یہ کھلاڑی اپنا دل کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیتے ،کہ انہیں معاشرے میں کس بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے ؟؟اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی اپنی فیملی کے لوگ بھی انہیں بوجھ محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان کے آرام ،کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی بھی پروا نہیں کی جاتی ۔ ان کی باتیں سن کر مجھ پر ایک عجب سی کیفیت طاری ہوجاتی اور میں سوچنے لگ جاتا کہ اگر ہم معاشرے کے ستائے اور ٹھکرائے ہوئے ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے ہونٹوں پر چند لمحات کے لئے ہی مسکراہٹ بکھیر دیں تو ہمارے نامہ اعمال میں بھی کچھ نیکیوں کا اضافہ ہو جائے گا اور کیا پتا یہی ہماری بخشش کا سبب بھی بن جائے ۔ مجھے اپنے خیالات اس وقت بالکل درست لگتے جب اسی قسم کی باتیں میں سلیم کریم صاحب اور امیر بھائی سے بھی اکثر سنتا تھا ‘‘ ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *