پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹرز سے روحانی تعلق رکھنے والے محمد نظام

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹرز سے روحانی تعلق رکھنے والے محمد نظام

عمر شاہین

کراچی کے لوکل اور نیشنل کرکٹ حلقوں کی معروف شخصیت محمد نظام پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کا اس وقت سے حصہ ہیں جب اس کا وجود بھی نہیں تھا اور اس طرز کی کرکٹ کے آغاز کا منصوبہ صرف دو افراد ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم اور اس کرکٹ کو متعارف کروانے سے لے کر اسے برانڈ بنانے تک کے سفر کے سالار امیر الدین انصاری کے درمیان ہی ڈسکس ہوا تھا ،مجھے لکھنے دیجئے کہ محمد نظام تیسرے فرد تھے جن تک اس طرز کی کرکٹ ٹیم کی تشکیل اور پھر اسے عروج دینے کا خےال پہنچا تھا ۔ یہ2007کے آخری دن تھے ۔ ورلڈ کپ 2007 میں شکست اورانضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد قومی ٹیم کی تشکیل نو بھی ہو رہی تھی ۔ پی پی ڈی سی اے کے سیکریٹری امیر الدین انصاری اور محمد نظام برسوں کے ساتھی تھے ا ور یہ کہ دونوں کی کراچی اور پاکستان کرکٹ پربھی گہری نظررہا کرتی تھی ،یہی وجہ تھی کہ وہ جب بھی ملتے کراچی اور پاکستان کرکٹ پر ضرور بات کی جاتی اور پھر جب اپنی (فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ )ٹیم تشکیل دینے کی بات آئی تو انہوں نے اس طرح کام کا آغاز کیا، گویا کہ انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد قومی ٹیم کی تشکیل کی ذمہ داری ان کو سونپی گئی ہ

’’ میں کئی برس سے کراچی کی لوکل کرکٹ سے منسلک تھا اور میرے لئے کوئی نئی ٹیم بنانا خواہ وہ لڑکوں کے کسی بھی ایج گروپ کی ہو یا لڑکیوں کی !کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ لیکن جب امیر بھائی نے ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم بنانے کی بات کی تو مجھے یقین نہیں آیا ‘‘ ۔ طویل قامت محمد نظام نے بتانا شروع کیا ۔ ’’ دراصل امیر بھائی بہت شوخ مزاج اور چلبلی طبیعت کے مالک ہیں ،اور میں ان کے اس مزاج سے بہت اچھی طرح واقف تھا اس لئے پہلے پہل میں نے ان کی بات کو ہنسی مذاق ہی سمجھا اور ہنس کر نظر انداز کر دیا ۔ لیکن جب اگلے ہی لمحے انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے اپنی اس بات کو دہرایا تو میں سمجھ گیا کہ معاملہ ہنسی مذاق سے کہیں آگے کا ہے ،سو میں بھی سنجیدہ ہو گیا اور امیر بھائی سے کہا کہ ڈس ایبلڈ کی ٹیم ضرور بن سکتی ہے کیوں نہیں بن سکتی ۔ یہ بات کہتے ہوئے میرے ذہن میں کسی قسم کا کوئی خاکہ وغیرہ نہیں تھا کہ ہ میں کس لائن آف ایکشن پر کام کرنا ہے اور یہ کہ اس قسم کی ٹیم تشکیل دینے کے لئے ڈس ایبلڈ لڑکے کہاں سے آئیں گے جنہیں کرکٹ کھیلنی بھی آتی ہو ؟‘‘ ۔

’’ لڑکوں کی تلاش شروع کرنے سے پہلے سلیم کریم صاحب اور امیر بھائی نے مجھے تٖفصیلی بریف کیا کہ ڈس ایبلٹی کرکٹ ٹیم کی تشکیل کے لئے ہمارا بنیادی مقصد کیا ہے ؟اور یہ کہ اس طرز کی کرکٹ ٹیم بنانے کے بعد ہ میں دنیا کو بتا نابھی ہے کہ ہم نے ےہ ٹیم کیوں بنائی؟ ۔ محمد نظام سنجیدگی سے بتاتے رہے ۔ ’’ دراصل ہمارا معاشرتی نظام اس قسم کا ہے کہ اس میں کوئی بھی اچھائی کا کام زیادہ پنپتا نہیں ہے ،اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی مفاد وابستہ ہے ۔ جناب سلیم کریم صاحب اور امیر بھائی چاہتے تھے کہ ہمارا کام اس قسم کا ہو کہ کوئی بھی ہم پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔ یوں تو نا صرف کراچی بلکہ سندھ اور پاکستان میں بے شمار ادارے ہیں جو معذور لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور انہیں معاشرے کا کار آمد شہری بنانے کے لئے مصروف عمل ہیں لیکن ان اداروں سے وابستہ افراد کا اپنا الگ ایجنڈا ہوتا ہے ،کئی ادارے اس قسم کے کام کرکے بدنام ہو رہے ہیں ۔ مختصر یہ کہ ایسے اداروں میں حق داروں تک ان کا حق نہیں پہنچ رہا ،کہیں سے بھی کسی بھی ذریعے سے آنے والا فنڈز چند ہاتھوں تک محدود رہتا ہے اور معذور افراد کو ان کا وہ حق نہیں مل پاتا جو کہ ملنا چاہئے ۔ ‘‘

’’گویا دوسرے الفاظ میں ہ میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا تھا ،چونکہ ہم ایک کرکٹ ٹیم تشکیل دینے جا رہے تھے اس لئے ہمارا واسطہ کرکٹ کے لوگوں سے زیادہ رہا ،تو وہ خدشات جو ہمارے بد خواہوں کے زہنوں میں تھے آہستہ آہستہ دور ہوتے گئے ،اس لئے کہ ہمارا مقصد پیسہ کمانا نہیں بلکہ اس ڈس ایبلڈ لڑکوں کو گھروں سے نکال کر گراءونڈز میں لانا تھا جن کو ان کے اپنی فیملی کے لوگ بھی بوجھ سمجھتے تھے ‘‘ ۔ محمد نظام جذباتی انداز میں بولتے چلے گئے ۔ ’’جب ہم نے لڑکوں کی تلاش شروع کی تو ہم سے کہا جاتا کہ ارے !یہ کیا ؟آپ لوگ لولے لنگڑوں کی کرکٹ ٹیم بنائیں گے ،ایسے کھلاڑی کہاں سے لائیں گے جو جسمانی نقاءص کے باوجود نارمل لڑکوں کی طرح کرکٹ کھیل سکیں اورےہ کہ ایک سے زائد ٹی میں کس طرح بنائیں  گے ؟ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ ہم نے اپنے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے زہنوں سے سب سے پہلے یہ چیز نکالنی ہے کہ وہ ڈس ایبلڈ نہیں بلکہ عام نارمل انسان ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق بہترین کرکٹ کھیل سکتے ہیں ،اس بات پر ہم تینوں متفق تھے کہ ہم نے کسی بھی کھلاڑی کو اس کے جسمانی نقص یا کمی کی وجہ سے مسترد نہیں کرنا خواہ اسے کھیلنا آتا ہو یا نہ آتا ہو‘‘ ۔ (جاری ہے)

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *