پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہےمشاہدات :عمر شاہین(دوسرا حصہ )

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہےمشاہدات :عمر شاہین(دوسرا حصہ )

کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاءو اور کھیلنے کا شوق رکھنے والے ڈس ایبلڈ لیکن با صلاحیت کرکٹرز کو جب ڈس ایبلڈ کرکٹ کا پلیٹ فارم میسر آیا تو وہ جو ق در جوق ڈس ایبلڈ کرکٹ کا حصہ بنتے چلے گئے ،اور جب انہیں درست سمت میں رہنمائی ،کرکٹ کی جدید ٹریننگ اور باقاعدہ کوچنگ ملی تو ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار بھی آتا گیا ۔ جلد ہی کراچی کرکٹ میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا اپنا ایک مقام بن گیا اور عام افراد بھی اس طرز کی کرکٹ سے آشنا ہونے لگے ۔ کراچی کے میڈیا حلقوں نے بھی ڈس ایبلڈ کرکٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ان کی بھر پور پذیرائی اور ہر سطح پر خوب حوصلہ افزائی کی گئی ۔ ان کی خبروں کو نمایاں انداز میں شاءع کیا گیا ،چینلز پر رپورٹ چلیں اور پروگرام بھی ہوئے ،کھلاڑیوں اور آفیشلز کے انٹر ویو بھی نشرہونے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈس ایبلڈ کرکٹ کا ہر جانب چرچا ہونے لگا ،ان دنوں مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ڈس ایبلڈ کرکٹ نئی نہیں بلکہ یہ بھی نارمل کرکٹ کی طرح کراچی میں بہت پہلے سے موجود تھی ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے2008کے کراچی میں منعقدہ ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران شعیب اختر نے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے ساتھ وقت گزارا ،نیٹ میں انہیں بالنگ کی ان کے ساتھ گھل مل گئے ،شعیب اختر نے دس ایبلڈ بالرز کو بالنگ کے گر بھی بتائے تھے ۔ گیند کو سوئنگ کرنے اور اس کی گرپ سے متعلق بھی آگاہی بہم پہنچائی تھی ۔ اس دن ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی خوشی دیدنی تھی اور ان کے چہروں سے ہی ان کی بے پناہ خوشی کا اندازہ لگا یا جا سکتا تھا کہ جس کرکٹر کی ایک دنیا دیوانی ہے اور جو اس کے ساتھ تصویر بنوانے اور آٹو گراف لینے کے لئے کئی کئی گھنٹے دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں وہ شعیب اختر ان کے درمیان موجود ہے ،انہیں یقین ہی نہیں آتا تھا کہ دنیا کا تیز رفتار بالر انہیں نیٹ پر بالنگ کر رہا ہے ،ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے بھی بلا کسی خوف و خطر دنیا کے تیز رفتار بالر کی بالنگ کا سامنا کیا اور اپنے اچھے اسٹروکس پر ان سے داد بھی وصول کی ۔ خود شعیب اختر نے اس روز میڈیا سے بات چیت میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی صلاحیتوں پر حیران رہ گئے ہیں ۔۔ یہاں پر ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے جنہوں نے اس کرکٹ کی ابتدا کی ،اس کے بعد اس کے فروغ،کھلاڑیوں کی تلاش اور ملک بھر میں مقبولیت کے درجے پر فائز کرنے میں جس قدر کوششیں کیں وہ قابل تعریف ہیں ۔ انہوں نے اس طرز کی کرکٹ کی ابتدا کے بعدمعاشرے کے مختلف طبقہ ہائے فکر کی تنقید بھی برداشت کی لیکن دلبرداشتہ نہیں ہوئے اورثابت قدم رہے، ابتدائی دور کی مشکلات کا میں عینی شاہد بھی ہوں ۔ ابتدا میں یہ بھی ہوتا تھا کہ ڈس ایبلڈ کرکٹ کھیلنے کے شوقین افراد کے گھر والے اپنے پیارے بیٹے یا بھائی کو میدان میں اتارنے سے ڈرتے اور گھبراتے، کہ مبادا کہیں چوٹ لگ جائے یاکوئی سنجیدہ نوعیت کی انجری وغیرہ ہوجائے ،یہاں بھی یہی دونوں ڈس ایبلڈ کرکٹر کے گھر والوں کومطمئن کرتے تھے ۔ یہ نا صرف ان کے گھر والوں کا خوف دور کرتے بلکہ خود کرکٹر کی اس طرح حوصلہ افزائی کرتے کہ وہ خود کو ڈس ایبلڈ کرکٹ میں آکر ایک فیملی کا حصہ سمجھتا اور اپنے آپ کو اپنے گھر کی طرح محفوظ سمجھتا ۔ ابتدائی دنوں میں یہ ان کی بڑی کامیابی تھی اور یہی وجہ تھی کہ محض دو سال کے قلیل عرصہ میں ملک بھر میں ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گئی کہ پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ لیگ کے انعقاد میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ۔ (جاری ہے)#TheRealPcb#ICRC#SAF#Bankalfalah

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *