پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (بارہواں حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (بارہواں حصہ)

عمرشاہین

کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ کی جانب سے 2018 میں جب پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کو تین ملکی ڈس ایبلڈ کرکٹ سیریز کھیلنے کی دعوت ملی تو پی ڈی سی اے حکام کی خوشی دیدنی تھی ،اسی طرح جب اس بات کا علم پاکستان کے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو ہوا تو ان کی بھی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی باق نہیں کہ پی ڈی سی اے نے اس سیریز میں ناصرف شرکت کاپلان تیار کیا بلکہ انگلینڈ کے پہلے دورے کو یادگار بنانے کےلیے سیریز جیتنے کی بھی ٹھانی اور بلند عزائم کے ساتھ اس یادگار ایونٹ کی تیاری شروع کی ۔ پی ڈی سی اے کے پاس بہترین کھلاڑیوں کا پول تو پہلے ہی تیار تھا ،نئے اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو شامل کر کے تربیتی کیمپ کا اعلان کیا گیا اور سخت ٹریننگ کی کڑی آزمائش سے کرکٹرز کو گزارا گیا ۔ انگلینڈ کے موسم اور وہاں کی کنڈیشنز کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ڈی سی اے کے تجربہ کار کوچز نے تربیتی کیمپ کے ماحول کو گرمائے رکھا ۔ اس سیریز میں پاکستان کے ساتھ ساتھ میزبان انگلینڈ اور بنگلہ دیش کی ٹیموں نے بھی شرکت کی تھی ۔

جب اس سیریز کےلیے تیاری جاری تھی تو پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے قومی ڈس ایبلڈ کرکٹرز آپس میں انگلینڈ کی باتیں کیا کرتے تھے ،ان کے درمیان پاکستان کی نارمل کرکٹ ٹیم کے اس سے پہلے کیے گئے دوروں کی باتیں ہوتیں ،انگلینڈ کے گراءونڈز ،وہاں کے موسم ،وہاں کی پلے انگ کنڈیشنز ،گیند کی سوئنگ ،پاکستان کے1987اور1992اور 1996کے دوروں کی باتیں اور پاکستان کی پرفارمنس پر بات کی جاتی،فضل محمود سے لے کر وسیم اکرم ۔ وقار یونس ،مشتاق احمد کی بالنگ کی بابت دل چسپ باتیں اور کہانیاں سنی اور سنائی جاتیں ،پاکستان ڈس ایبلڈ ٹیم کے کوچز کھلاڑیوں کو وہاں کی وکٹوں کے بارے میں بتاتے ،گیند کیسے اور کتنا گھومتا ہے ،بیٹنگ اسٹانس کیا ہونا چاہئے ؟ڈس ایبلڈ بیٹسمینوں اور بالرز کے لئے انگلینڈ میں کیا کیا چیزیں نقصان دہ ہیں اور یہ کہ کن حالات میں ہمارے بیٹسمینوں کو فائدہ مل سکتا ہے ۔ غرض یہ کہ کیمپ میں ہر پل اور ہر گھڑی انگلینڈ میں کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے ہی ’’ہر دو‘‘ کی بات چیت ہوتی رہتی ۔

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن بھی اس سیریز کی اہمیت سے بخوبی واقف تھی ،یہی وجہ تھی کہ اس نے اس سیریز کی تیاری ، ڈس ایبلڈ ٹیم کی تشکیل سے لے کر ان کے سفری اخراجات کے حصول تک بہت بھاگ دوڑ کی اور اس کوشش میں دن رات ایک کر دیا ۔ یورپ کا سفر کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ انگلینڈ کے سفری دستاویزات کے حصول کے لئے عام افراد کو کن کن مراحل سے گزارنا پڑتا ہے ۔ میں یہ لکھنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ پی ڈی سی اے نے اپنے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے ویزوں کےلیے جو محنت کی ،ان کے کاغذات کی تکمیل اور انہیں پورا کرنے میں جس طرح ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھا ،انہیں ویزا کے حصول کے سلسلے میں مشکلات بتائیں اور سمجھائیں اور ان سے کام لیا ،وہ اسی کا ہی خاصہ ہے ۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے ساتھ جن کرکٹرز نے آج تک انگلینڈ کے دونوں ٹورز کیے ہیں ،اس کی یادیں ان کی زندگی کا ان مول خزانہ بن چکی ہیں ۔

آخر کار وہ دن بھی آیا جب قومی کرکٹرز انگلینڈ کی اڑان بھرنے کے لئے کراچی کے انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر موجود تھے ۔ ٹیم میں شامل نا صرف ہر کھلاڑی بلکہ ہر آفیشنل بھی پاکستان کی شان سبز رنگ کا بلیزر پہنے خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا ۔ پاکستان کے دوردراز کے علاقوں سے قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں شامل ہر کرکٹر خود کو پاکستان کی شان ،آن اور فخر سمجھ رہا تھا ۔ ائیر پورٹ کے احاطے میں موجود ہر شخص جب ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو پاکستان کا بلیزر پہنے دیکھتا تو اس کی آنکھوں میں چمک اور دل میں احساس تفاخر پیدا ہوتا کہ یہ لوگ پاکستان کے سفیر بن کر انگلینڈ جا رہے ہیں ،کامیابی ان کے قدم چومے ۔

قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کی انگلینڈ روانگی کے موقع پر کراچی کا میڈیا بھی ائیر پورٹ پر موجود تھا اور اس ٹیم کو بھی اسی طرح رخصت کیا جا رہا تھا جس طرح پاکستان کی کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کو بڑے ایونٹ کے لئے رخصت کیا جاتا ہے ۔ کھلاڑیوں کے اہل خانہ کی کثیر تعداد بھی اس موقع پر موجود تھی اور اپنے اس پیارے بیٹے کو پاکستان کی نمائندگی کے لئے جاتا ہوا فخر سے دیکھ رہی تھی جسے شاید بچپن میں انہوں نے کبھی خود بھی اس طرح نہیں دیکھا ہوگا اور نا ہی سوچا ہوگا کہ ان کا یہ ڈس ایبلڈ بیٹا ایک دن نا صرف پاکستان بلکہ ان کے خاندان اور فیملی کے لئے فخر کی علامت بن کر سامنے آئے گا اور پاکستان کا گرین بلیزر زیب تن کرے گا ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *