پشاور ریجن میں فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کا روح رواں ، ساجد خان (دوسرا اور آخری حصہ

پشاور ریجن میں فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کا روح رواں ، ساجد خان (دوسرا اور آخری حصہ

عمرشاہین

قدرت نے خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو زندگی کے ہر شعبہ ہائے جات میں قدرتی صلاحیتوں سے مالامال رکھا ہے اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہاں کے معذور لوگوں میں بھی ایک عجب طرح کی غضب خودداری پائی جاتی ہے اور یہ لوگ اپنے ہاتھ کی محنت پر یقین رکھتے ہیں ۔ ’’ہ میں ڈس ایبلڈ کھلاڑیوں کے والدین نے ابتدا میں کہا تھا کہ ہمارے بیٹے کی معذوری کا کبھی سودا نہیں کرنا ‘‘ ۔ ساجد خان پر سوچ لہجے ایک بار پھر گویا ہوئے ۔ ’’ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن ،ملک کی تمام این جی او زاور ہر اس ادارے سے الگ ہے جو پاکستان میں انسانیت کے نام پر کام کرتی ہیں ان کا کام صرف اپنا بینک بیلنس بڑھانا اور سال میں ایک آدھ فنکشن میں ڈس ایبلڈ، نابینا یا کسی اور معذوری میں مبتلا افراد کی چند ہزار روپے کی مدد کرنا ہے ۔ ہم اپنے سرکل میں شامل ڈس ایبلڈ کرکٹر کا احساس نفس مجروح کئے بغیر اس کو تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں ‘،تاکہ وہ اپنے کھیل پر مکمل فوکس کر سکے اور بہترین پرفارمنس دے سکے‘ ۔

’’یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ دنیا بھر کے کھیلوں کی فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کا ماٹو کہ’’ ہمارے لئے کھلاڑی سب سے پہلے ہے‘‘ ۔ ساجد خان بتاتے رہے ۔ ’’پی پی ڈی سی اے نے ہ میں بتایا تھا کہ ہمارا سب سے پہلا کام ڈس ایبلڈ کرکٹر کی خود اعتمادی کو بحال کرنا اور پھر اسے کرکٹ کے میدان میں لانا اور اس سے بہتر سے بہتر پرفارم کروانا ہے کیونکہ ہمارے لئے بھی وہ سب سے پہلے ہے ،پی پی ڈی سی اے نے حال ہی میں ہونے والی نیشنل ٹی 20کرکٹ چیمپئن شپ میں ان کرکٹرزکو وہ تمام سہولیات فراہم کیں ،جو کسی بھی فرسٹ کلاس کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے کھلاڑیوں کو فراہم کرتا ہے ،میری منیجر شپ میں یونس خان ،کبیر خان ،یاسر حمید ،عمر گل سمیت کئی نامور کرکٹرز کھیل چکے ہیں ،اس لئے مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ کھلاڑیوں کی کسی بڑے ٹورنامنٹ کے دوران کیا ضروریات ہوتی ہیں ،مجھے خوشی ہے کہ پی پی ڈی سی اے اسی معیار پر پورا اتر رہی ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈومیسٹک کرکٹ کے لئے قائم کر رکھا ہے ۔ ‘‘

اپنی زندگی کا تین چوتھائی حصہ کرکٹ کو دینے والے ساجد خان کی یہ بھی خواہش ہے کہ وہ مرتے دم تک پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے ساتھ منسلک رہ کر خیبر پختونخواہ میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے لئے کام کرتے رہیں اور اس طرز کرکٹ کی مزید مقبولیت اور نئے کھلاڑیو ں کی تلاش کے لئے سرگرداں رہیں ۔ ’’آپ تصور نہیں کر سکتے ،جب کوئی نیا ڈس ایبلڈ کرکٹر ملتا ہے تو مجھے کس قدر خوشی ہوتی ہے ‘‘ ۔ ساجد خان جوشیلے انداز میں بتارہے تھے ۔ ’’ جب ہم اس کے گھر والوں کو بتا تے ہیں کہ آپ کے چشم و چراغ کو ہم مستقبل کا اسٹار بنانا چاہتے ہیں ،اس میں اتنی صلاحیتیں ہیں کہ یہ اپنے علاقے کا ،اپنے شہر کا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کا نام روشن کر سکتا ہے ،تو ابتدا میں اس کے گھر والوں کو یقین نہیں آتا ،لیکن جب ان کی فیملی کا ’’کرکٹر بیٹا ‘‘خود اپنے منہ سے یہ بات کہتا ہے تو مجھے بہت مسرت ہوتی ہے ۔ ایسے کئی کرکٹرز ہیں جو دورافتادہ علاقے سے میں نے دریافت کئے اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے بھی کرکٹ کھیلی ‘‘ ۔

کرونا کی وبا کے بعد دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کھیلوں کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو پی پی ڈی سی اے نے بھی دو سال سے تعطل کا شکار رہنے والی نیشنل ٹی20کرکٹ چیمپئن شپ شایان شان انداز میں منعقدکروائی ،جس کی فاتح بہاولپور کی ٹیم رہی ۔ ’’ بہاولپور کا فاتح بننا اس بات کاثبوت ہے کہ فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کوملک بھر کے طول و عرض میں پہلے سے زیادہ فروغ مل رہا ہے ‘‘ ۔ ساجد خان نے کہنا شروع کیا ۔ ’’اس کی ایک اور مثال حالیہ نیشنل چیمپئن شپ کے پلیئر آف دی ایونٹ محمد نعمان ہیں ،جنہوں نے پہلی ہی شرکت میں چار بار مین آف دی میچ کا اعزاز حاصل کیا ۔ پی پی ڈی سی اے کے سیکریٹری امیر الدین انصاری سمیت ہر اس شخص کو آج بہت خوشی ہوتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا لگایا ہوا پودا اب تن آور درخت بن چکا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چھوٹے چھوٹے علاقوں سے اب بڑے بڑے کھلاڑی آرہے ہیں ‘‘ ’’اب یہ صورت حا ل ہے کہ کراچی ،لاہور اور پشاورسمیت ہر ریجن میں مقابلے کی فضا پیدا ہو گئی ہے، اب پرفارمنس دینے والا کھلاڑی ہی ریجن کی ٹیم میں جگہ حاصل کرپا تا ہے جو بہت خوش آئند بات ہے ۔ پہلے کراچی ،پھر ملتان ،پھر پشاور اور اب بہاولپور چیمپئن بنا ہے‘‘ساجد خان نے اپنی مدلل گفتگو جاری رکھی ۔ ’’یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ڈس ایبلٹی کرکٹ کھیلنے والے کرکٹرز محض وقت گزاری یا اپنا شوق پورا نہیں کر رہے ،بلکہ وہ کرکٹ کی تما م باریکیوں سے بھی واقف ہیں اور یہ کہ اپنی غلطیوں سے بھی مسلسل سیکھتے رہتے ہیں ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کا مستقبل بہت شاندار ہے ،پاکستان کی ڈس ایبلٹی کرکٹ ٹیم کو دیکھ کر لوگ خوش ہوتے ہیں اور ان کرکٹرز کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں ، میں بہت پر جوش ہوں کہ پی پی ڈی سی اے کی مسلسل کاوشوں ،آئی سی آر سی اور شاہد آفریدی فاءونڈیشن کے مستقل تعاون سے پاکستان ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن اپنے کرکٹرز کے لئے پہلے سے زیادہ مستقل مزاجی سے کام کرے گی اور ان کے لئے نئے ایونٹس بھی شروع ہونگے ‘‘

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *