پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا مرد مجاہد اسلم خان بڑیچ (دوسرا اور آخری حصہ)

پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا مرد مجاہد اسلم خان بڑیچ (دوسرا اور آخری حصہ)

عمر شاہین

’’بلوچستان کے دوردراز کے علاقوں سے آنے والے ڈس ایبلڈ کرکٹرز جب میرے ساتھ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پہلی بار داخل ہوئے تو ان کے چہروں سے ان کی اندرونی مسرت کو میں بخونی محسوس کر سکتا تھا ‘‘ ۔ محمد اسلم بڑیچ مسکراتے ہوئے کہنے لگے ۔ ’’ ظاہر ہے انہوں نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن وہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں نا صرف داخل ہونگے بلکہ کرکٹ بھی کھیلیں گے ۔ ان کے جذبات و احساسات وہی تھے جیسے اس بچے کے ہوتے ہیں جس کو اس کا من پسند کھلونا بغیر کسی فرمائش کے مل جائے ۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں بلوچستان کے ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے لئے خوشی اور مسرت کا موجب بنا جو اس سے پہلے اس قدر مظلوم اور پسے ہوئے تھے کہ ان کے گھر والے بھی شاید ان کو اس قدر اہمیت نہ دیتے ہوں جوکہ ان کو کوءٹہ اور بلوچستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے بعد ملی ۔ ‘‘

پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ ٹی20کرکٹ چیمپئن شپ کے بعد جب ملک بھر ڈس ایبلڈ کرکٹ کا شہرہ ہو گیا تو بلوچستان میں بھی اس ٹورنامنٹ کی اور کوءٹہ ٹیم کی شہرت ہو گئی ،بلوچستان کے جن کھلاڑیوں نے اس ایونٹ میں شرکت کی تھی انہوں نے واپس جا کر جب اپنے خاندان والوں کو ،دوستوں کو اور کرکٹ حلقوں کو اس کرکٹ کی بابت آگاہ کیا تو اس کا حوصلہ افزا رسپانس پی ڈی سی اے کو ملا ۔ کئی نئے کھلاڑی پول میں شامل ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب بلوچستان کی ڈس ایبلڈ کرکٹ میں مقابلے کی فضا پیدا ہو چلی تھی ۔ صرف دو سال کے عرصہ میں بلوچستان کے پول میں کھلاڑیوں کی تعداد 70سے زائد ہو چکی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلی نیشنل ڈس ایبلڈکرکٹ چیمپئن شپ کے بعدمحمد اسلم بڑیچ اور ان کے رفقا نے آرام نہیں کیا تھا بلکہ تمام اضلاع میں کئی میچز منعقد کروائے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے تمام اضلاع میں با صلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش جا ری رکھی تھی جس کا یہ ثمر ملا کہ بلوچستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا ان کا لگایا ہواپودا دیکھتے ہی دیکھتے تن آور درخت بن گیا ۔

محمد اسلم بڑیچ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر رہنے کے ساتھ ساتھ پی ڈی سی اے کی سلیکشن کمیٹی میں بھی شامل رہے ۔ بلوچستان میں کھلاڑیوں کی غیر معمولی تعداد دیکھ کر انہوں نے پی ڈی سی اے سے استدعا کی بلوچستان کی کم از کم دو ٹیموں کو نیشنل ٹی20کرکٹ چیمپئن شپ میں نمائندگی دی جائے ،ان کی بات منظور کر لی گئی اور اب ہر نیشنل ٹی20ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ میں بلوچستان کی دو ٹی میں کوءٹہ اور کوءٹہ بولان کے نام سے شرکت کرتی ہیں ۔ ’’ دیکھیں !بلوچستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کی بنیاد ڈالنا اور پھر اسے فروغ دینا آسان نہیں تھا ‘‘ ۔ محمد اسلم نے بتایا ۔ ’’ پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم اور امیرالدین انصاری ہی تھے ،جن کی مسلسل حوصلہ افزائی اور اس سلسلے میں ہر قدم پر رہنمائی نے ہ میں اپنا کام ہموار انداز میں کرنے کی ہمت اور حوصلہ دیا اور آج اس حوالے سے صورت حال آپ کے سامنے ہے ۔ بلوچستان کے تین کھلاڑی اس وقت پاکستان کی نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں شامل ہیں ،ہماری کاوشوں کا اس سے بہتر صلہ اور کیا ہو سکتا ہے ;238;‘‘ ۔

’’بلوچستان کے کھلاڑیوں نے ہمیشہ کراچی میں کھیل کر انجوائے کیا ہے اور یہ کہ کراچی انہیں اپنا دوسرا گھر لگتا ہے ‘‘ ۔ محمد اسلم بڑیچ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ ’’گزشتہ دو سال سے دنیا بھر کے کھیل کورونا کی وبا کے باعث معطل تھے اور اب جب کھیل بحال ہوگئے ہیں اور نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ کا شیڈول بھی آچکا ہے تو بلوچستان کی دونوں ٹیموں کے کھلاڑی بھی ایونٹ میں شرکت کے لئے بہت پر جوش ہیں ۔ ہم نے ٹیموں کا انتخاب کر لیا ہے ،کھلاڑی ہر روز دو سے تین بار مجھے فون کر کے پوچھتے ہیں کہ روانگی کب ہے ;238; ۔ یہ اسپورٹس ہی ہے جو آپ کو دوسرے علاقوں کے لوگوں سے جوڑے رکھتا ہے ،بلوچستان کے کھلاڑیوں کی کراچی سمیت ملک بھر کے ڈس ایبلڈ کرکٹرز سے دوستیاں ہیں ۔ اور ابھی بھی بلوچستان کے کرکٹرز کراچی میں کرکٹ کھیلنے اور اپنے یہاں کے دوستوں سے ملنے کے لئے بے چین ہیں ‘‘ ۔

’’مجھے بلوچستان کے ان معصوم ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے لئے کچھ زیادہ کرنا چاہئے تھا،جو کہ اب تک میں کر سکا ہوں ‘‘ ۔ محمد اسلم نے ایک شان بے نیازی سے کہا ۔ ’’اس کے باوجود کہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن تمام ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو وہ تمام سہولیات دیتی ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کسی بھی فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ میں کھلاڑیوں کو دیتا ہے ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ،ہ میں ان کھلاڑیوں کا غیر معمولی خیال رکھنا پڑتا ہے ،انہیں ایک ہی بات کئی کئی بار بتانا اور سمجھانا پڑتی ہے ،اس لئے کہ یہ معصوم ،سادہ اور غیر معمولی لوگ ہیں ان کو کھیل کی راغب کرکے اور ان کو اعتماد دے کر جو خوشی میں محسوس کرتا ہوں لگتا ہے خالق کائنات سے مجھ سے یہی کام لینا ہے اور اس کے بدلے مجھے جنت عطا کرنی ہے ‘‘ ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *