ڈس ایبلڈ کرکٹرز کا کرشمہ ساذ استاد جمیل کامران ،ملتان کی ون مین اکیڈمی

ڈس ایبلڈ کرکٹرز کا کرشمہ ساذ استاد جمیل کامران ،ملتان کی ون مین اکیڈمی

عمرشاہین

زندگی کے تمام شعبہ جات میں دو لوگ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں ایک وہ جو اپنی خداد اد صلاحیت کی بناپر کسی بھی شعبہ میں ناقابل فراموش کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو کسی انسان کو کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں اور اس وقت اس کی حوصلہ افزائی ،قدر اور اس کےلیے محنت کرتے ہیں جب وہ کچھ نہیں ہوتا ،یقینی طور پر ایسے لوگ اپنے اپنے شعبہ جات میں ’’مسیحا ‘‘ کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں ،اور جب بات ڈس ایبلڈ افراد کی ہوتو ایسے شخص کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ اس نے ایک ایسے شعبہ میں کام کیا جو بہت حساس قرار دیا جاتا ہے ۔ ایسے ہی ایک مسیحا ملتان سے تعلق رکھنے والے جمیل کامران ہیں جن کا کرکٹ سے ناطہ45سال پراناہے جبکہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے ساتھ بھی وہ پہلے دن سے منسلک ہیں ۔ ان کی ان تھک کاوشوں سے اولیا کی سرزمین ملتان سے بھی پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کو کئی با صلاحیت اور ہونہار کرکٹرز ملے ہیں جنہوں نے نا صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور ملک کا نام روشن کیا ۔ ملتان کے آٹھ کھلاڑی قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں شامل ہوتے ہیں جوملتان اور خود جمیل کامران کےلیے بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ۔

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے ابتدائی دنوں میں جمیل کامران نے ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم اور امیر الدین انصاری کی ہدایات پر ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں نا صرف کرکٹ کے شوقین با صلاحیت ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو تلاش کیا ،ان کی صلاحیتوں کو نکھارا ،ٹیم تشکیل دی اور مختصر وقت میں پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ چیمپئن شپ میں ملتان کی ٹیم کی شرکت کو یقینی بھی بنایا ۔ ابتدا میں ملتان سے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی تلاش نہایت مشکل تھی ،جو کھلاڑی آتے تھے ان کے دل میں کئی سوالات ہوتے تھے کہ خداجانے یہ ان جانے لوگ ہم سے کیسا رویہ رکھیں ۔ جس معاشرے میں کسی ڈس ایبلڈ شخص کو برابری کے حقوق ہی نا ں ملتے ہوں وہاں ایک ایسے کھیل کے لئے ٹیم کی تشکیل دینا جو پورے ملک میں مقبول ہو ،ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے لئے انتہائی حیران کن بات تھی ۔ اس کے باوجود ابتدا میں کامران جمیل کو کئی ہونہاراور با صلاحیت کھلاڑی مل گئے جو لمبے عرصے تک ان کے ساتھ چلے ۔ ان کھلاڑیوں میں سے مطلوب قریشی اور جہانزیب ٹوانہ کو ڈس ایبلڈ کرکٹ میں سپر اسٹار کا درجہ حاصل ہے ،ان کے علاوہ جو کھلاڑی جمیل کامران صاحب نے متعارف کروائے ان میں حارث ،عمیز الرحمان اور زبیر سلیم کا نام نمایاں ہے جبکہ نوجوان کھلاڑیوں میں ماجد حسین کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ،جمیل کامران کو ملتان میں ڈس ایبلڈکرکٹ کے حوالے سے ’’ون مین اکیڈمی ‘‘قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔

ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی ابتدائی تربیت کے بارے میں جمیل کامران بتاتے ہیں ’’شروعات میں جب ڈس ایبلڈ نوجوان لڑ کے کھیلنے کےلیے آتے ہیں تو انہیں میں ایک ’’ماں ‘‘ کی طرح ٹریٹ کرتا ہوں ،اسلیے کہ یہ بہت حساس ہوتے ہیں ،انہیں صرف اپنے گھر میں ہی پیار محبت ملتا ہے جب یہ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو،معاشرہ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ،آوازے کستا ہے ،اسلیے بھی یہ لوگ ڈرے سہمے ہوئے ٹرائلز میں آتے ہیں یا کھیلنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں ،ملتان کے اطراف کے گاءوں دیہات سے آنے والوں پر تو مزید محنت کرنا پڑتی ہے ،ان کا احساس محرومی ،مایوس طرز فکر، اپنے بارے میں منفی سوچ اور خود اعتمادی کی کمی جیسی باتوں کو ختم کر کے ان کے اندر اعتماد پیدا کرنا میری پہلی ترجیح ہوتی ہے ، میں ان کے ذہن سے سب سے پہلے یہ بات بٹھایا کرتاہوں کہ آپ خود کو معذورنہ سمجھیں ،آپ نارمل ہیں اور آپ بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو دوسرے نارمل کرکٹرز کر سکتے ہیں ،جب ان میں یہ سوچ ختم ہوجاتی ہے توپھر ان میں نئی خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ خود کو تبدیل انسان محسوس کرتے ہیں ،بس اس کے بعد میرا کام آسان ہوجاتا ہے اور میں کرکٹ پر فوکس کر کے ان کے ساتھ کام کرتا ہوں ‘‘ ۔

یہ جمیل کامران کی سخت محنت اور ان کے کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی ہی تھی کہ ملتان نے نا صر ف پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلا بلکہ ہر ایونٹ میں پہلے سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ،یہاں تک کہ ملتان نے اپنی عمدہ کارکردگی سے کراچی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جہاں سے ڈس ایبلڈ کرکٹ کا آغاز ہوا تھا ۔ کراچی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم تو باقاعدہ کے سی سی اے سے رجسٹرڈ بھی تھی اور اس کے میچز نارمل ٹیموں کے ساتھ بھی ہورہے تھے اس کے باوجود ملتان کی ٹیم کی کارکردگی رفتہ رفتہ کراچی اور پاکستان کے تمام ریجنز سے بہتر ہوتی چلی گئی ۔ ملتان کی ٹیم آخری کی تین نیشنل چیمپئن شپ کی فاتح چلی آرہی ہے جبکہ اس نے اب تک کئی چیمپئن شپس اور ٹورنامنٹ کا فائنل بھی کھیل رکھاہے ۔ جمیل کامران نا صرف ملتان ،بلکہ جنوبی پنجاب کے دوسرے اضلاع بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں بھی کام کر رہے ہیں ،ان کے پاس کھلاڑیوں کا وسیع پول موجود ہے اور اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ڈی سی اے نے انہیں ملتان کے ساتھ ساتھ بہاولپور کی بھی الگ ٹیم بنانے کی اجازت دی تھی اور اب جنوبی پنجاب کی دو ٹی میں نا صرف نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ بلکہ دوسرے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتی ہیں جس سے اس خطے کے بیشتر کھلاڑیوں کی نیشنل لیول پر بھر پور نمائندگی ہو جاتی ہے ۔

2010 میں جب پاکستان کی پہلی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم نے ملائشیا اور سنگاپور کا دورہ کیا تو اس میں بھی ملتان کے کئی ڈس ایبلڈ کرکٹرز شامل تھے جو اس بات کی دلیل تھی کہ ملتان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے حوالے سے بہت کام ہو رہا تھا جس کے ثمرات ملتان کے ڈس ایبلڈ کرکٹرز تک بھی پہنچ رہے تھے ،جنوبی پنجاب کے اس خطے سے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی تلاش کا کام جمیل کامران نے تا حال ترک نہیں کیا ہے ،بلکہ اب تو ان کی یہ عادت سی ہوگئی ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے کسی بھی علاقے میں ہوں ،وہاں اپنے شناسا افراد سے پوچھتے رہتے ہیں کہ یہاں کوئی ڈس ایبلڈ بچہ تو نہیں ہے جسے کرکٹ کھیلنے کا شوق ہو ،اس سے جمیل کامران کی پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ سے محبت بلکہ جنون کی حد تک عشق کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ یقینی طور پر انہیں اپنے اس کام میں بہت کٹھن راہوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن اپنی ثابت قدمی سے انہوں نے ہر ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا ،حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ملتان کی جو ٹیم نیشنل چیمپئن شپ یا کوئی نیشنل ٹورنامنٹ کھیلتی ہے تو اگلے ٹورنامنٹ یا چیمپئن شپ میں اس کے پانچ سے سات کھلاڑی تبدیل ہوتے ہیں ،دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈس ایبلڈ کرکٹ میں پاکستان کے سپر اسٹار مطلوب قریشی جنہیں پاکستان کی جانب سے پہلی انٹر نیشنل سنچری بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے ،جب جمیل کامران کے پاس آئے تو کرکٹ کھیلنے کےلیے تیار نہیں تھے ،مطلوب کے والد نے ان پر کھیلنے کےلیے بہت دباءو ڈالا ،جمیل کامران صاحب نے بھی بہت سمجھایا ،بلکہ یوں کہا جائے کہ مطلوب قریشی کی برین واشنگ کی ،تب جا کر وہ کرکٹ کھیلنے پر راضی ہوئے اور پھر انہوں نے کیا خوب کرکٹ کھیلی اور سپر اسٹار بنے ۔

جمیل کامران کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ ایک معروف اور منظم کرکٹ آرگنائزر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈسپلن پر سختی سے کاربند رہنے والے اسپورٹس مین بھی ہیں ،انہوں نے کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں میں بھی نام کمایا ۔ ڈسپلن کے حوالے سے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ’’ ملتان کی ٹیم کے ایک بہت با صلاحیت ڈس ایبلڈ کرکٹر تھے(نام مخفی ہے) ،انہوں نے کراچی میں منعقدہ نیشنل چیمپئن شپ کے دوران اپنے کسی ساتھی سے تلخ کلامی کے بعد سیمی فائنل کھیلنے سے انکار کر دیا تھا حتیٰ کہ میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی کھیلنے پر راضی نہ ہوئے ،چونکہ وہ ایک کلیدی بالر تھے ان کی عدم موجودگی کے باعث ملتان کو سیمی فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ،جس پر ملتان کے کھلاڑی آبدیدہ ہوئے اور انہوں نے میچ نہ کھیلنے والے کرکٹر کے ساتھ نا صرف ملتان واپس جانے بلکہ آئندہ بھی کھیلنے سے انکار کر دیا ،ہم جانتے تھے کہ پاکستان کی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کا انٹر نیشنل ٹور نزدیک ہے اور وہ کرکٹر قومی ٹیم کے لئے آٹو میٹک چوائس تھا، اس پر ہم نے اس کرکٹر پر ایک سال کی پابندی عائد کردی ،پی ڈی سی اے نے بھی ہمارے اس فیصلے کو سراہا اور شاباش دی کہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے ‘‘ ۔ جمیل کامران نا صر ف پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے شاندار اور روشن مستقبل کے حوالے سے بہت پر امید ہیں بلکہ ان کی کوشش ہے کہ ملتان میں انڈر12اور انڈر16کے ڈس ایبلڈ لڑکوں کے لئے باقاعدہ اکیڈمی بنائی جائے تاکہ ملتان کو بیک اپ ٹیلنٹ کی تلاش میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *