یک پاءوں سے محروم اشفاق شاکرفیلڈنگ میں مہارت کا شاہکار (پہلا حصہ)عمر شاہین

یک پاءوں سے محروم اشفاق شاکرفیلڈنگ میں مہارت کا شاہکار (پہلا حصہ)عمر شاہین

نامساعد حالات ،غربت اور فکر معاش کی چکی میں پسنے والے وطن عزیز کے کئی نوجوان آگے چل کر اپنی فیلڈ میں کامیابی کا روشن منارہ بن کر ابھرے جنہوں نے اپنی مستقل مزاجی اور کبھی ہارنہ ماننے والے عزم و حوصلے سے ہر طوفان کو شکست دی اور اپنے جیسے لوگوں کے لئے حوصلوں کا نشان بھی بنے ،پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں تاہم اسپورٹس میں ہ میں ایسے افراد کم کم نظر آتے ہیں ۔ اگر پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کی بات کی جائے تو اس میں پنجاب کے ضلع پتوکی کی تحصیل قصور کے دور افتادہ گاءوں کے رہائشی محمد اشفاق شاکر کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ،جنہوں نے انتہائی غیر موافق حالات اور غربت میں آنکھ کھولنے کے باوجود نا صرف پاکستان کی جانب سے ڈس ایبلڈ کرکٹ کھیلی بلکہ انہیں ڈس ایبلڈ کرکٹ میں پہلی سنچری اسکور کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ اپنی چست اور ذہانت آمیز فیلڈنگ کی وجہ سے ان کے ٹیم میٹ انہیں ’’جونٹی رہوڈز ‘‘ اور ’’عمران نذیر‘‘ پکارتے تھے ۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ یہ دونوں نام انہیں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم نے دیے تھے جو ان کی فیلڈنگ کے دلدادہ تھے،یہ بات حقیقت ہے کہ اشفاق شاکر ایک بہترین فیلڈر ہیں جو اپنی فیلڈنگ سے ہر میچ میں یقینی طور پر 15سے25رنز بچاتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ ان کے رن آءوٹ بھی بعض اوقات میچ کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں ۔اشفاق شاکر اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وقار یونس میں دل چسپ مماثلت پائی جاتی ہے ،وقار یونس کا بایاں ہاتھ بچپن میں چارہ کاٹنے والی مشین میں آگیا تھا جس کی وجہ سے ان کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کٹ گئی تھی جبکہ احمد شاکر کا دایاں پاءوں چار سال کی عمر میں چارہ کاٹنے والی مشین میں آکر آدھا ہو گیا ۔ اسی وجہ سے ان کی ٹانگ بھی چھوٹی ہو گئی تھی ۔ انہوں نے 1992کے ورلڈ کپ کی فتح نو عمری میں دیکھ لی تھی اور شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے کرکٹ جنون کا سفر محض چھ سال کی عمر میں شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے ۔ اشفاق شاکر نے بچپن سے ہی اپنے گھر اور آس پاس غربت اور احساس محرومی کو ڈیرہ ڈالے دیکھا تھا اسلیے ان کے دل میں نا صرف اپنے کرکٹ کے شوق کی تسکین کا جزبہ تھا بلکہ اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کے لئے روزگار کی فکر بھی تھی ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اشفاق شاکر شاکر نے بھی کئی نامور کرکٹرز کی طرح بچپن میں کرکٹ کھیلنے پر اپنے والد سے مار کھائی ۔ ان کے والد ان کے کرکٹ کھیلنے کے سخت خلاف تھے ،اس کے باوجود وہ ان سے چھپ کر ٹیپ ٹینس کرکٹ کھیلتے تھے ۔ ایک بار ’’چوہدریوں ‘‘ کے خلاف میچ میں احمد شاکر بیٹنگ پر نہیں جا رہے تھے کیونکہ ان کے والد سامنے بیٹھے تھے ،اس پر ان کے کپتان اشفاق شاکر کے والد کے پاس گئے کہ اپنے بیٹے کو بیٹنگ کےلیے جانے دیں ورنہ ہم میچ ہار جائیں گے ۔ ان کے والد نے اجازت دے دی ۔ اشفاق شاکر نے 11چھکے لگاکر اپنی ’’غریبوں ‘‘کی ٹیم کو’’چوہدریوں ‘‘ کے خلاف کامیابی دلائی،واضح رہے کہ یہ میچ میں سال میں صرف ایک بار ہی منعقد ہوتا تھا ۔ اس کے بعد سے ان کے والد نے ان کو کبھی کھیلنے سے منع نہیں کیا ۔اشفاق شاکر کے دل میں خواہش تھی کہ وہ بھی ہارڈ بال سے کرکٹ کھیلیں تاہم روزگار کے مسائل ان کے آڑے آجاتے ،اس دورا ن انہوں نے کئی فیکٹریوں میں کا م کیا اور ان فیکٹریوں کی ٹیموں میں کھیل کر اپنے شوق کو جاری رکھا ۔ انہوں نے 20سال کی عمر تک ہارڈ بال سے کرکٹ نہیں کھیلی تھی ۔ روزگار کے سلسلے میں ان کا لاہور آنا ہوا تو ایک دن فارغ وقت میں وہ ایک نیٹ پر چلے گئے اور بال اٹھا کر دینے لگے ،یہ لاہور کی ایک نامی گرامی ٹیم کا نیٹ تھا ،ان کے شوق اور عزم و ہمت کو دیکھ کر جلد ہی انہیں نیٹ پر مستقل بلایا جانے لگا ،چند ہفتوں کے بعد موجودہ کپتان بابر اعظم ،جو اس وقت نوعمر تھے،اپنے والد کے ساتھ اسی نیٹ پر آنے لگ گئے ،احمد شاکر کے کپتان نے بابر اعظم کو ان کی تحویل میں دے دیا کہ آپ ان کو نیٹ کروایا کرو ،یوں بابر اعظم کی ابتدائی کرکٹ میں ان کا بھی ہاتھ ہے،اشفاق شاکراب ہارڈ بال سے خوب کھیلنے لگ گئے تھے اور اسی نیٹ پر انہوں نے اپنی فیلڈنگ کی مہارت کو بہترسے بہترین کیا ۔ رات بھر وہ ایک درزی کی دکان پر ’’رفوگری ‘‘ کرتے اور دن میں کرکٹ نیٹ پر اپنی اسکلز پر کام کرتے ۔ 2006 میں جب پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے قیام کے بعد ملک بھر میں ٹیموں کی تشکیل کا سلسلہ شروع ہوا تو اشفاق شاکر لاہور کی ٹیم میں منتخب ہوگئے تاہم پہلی نیشنل چیمپئن شپ میں انہیں کوئی میچ کھیلنے کو نہیں ملا اس کے باوجود وہ کراچی سے خوشی خوشی واپس گئے کیونکہ کراچی میں انہیں سلیم کریم اور امیر الدین انصاری کی جانب سے جو حوصلہ افزائی ملی اور ان کی فیلڈنگ کی جتنی تعریف کی گئی وہ ان کے مستقبل کے لئے مشعل راہ بن گئی ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *