تیز گیند کرنے کے جنون نے شیر علی کو ڈس ایبلڈ کرکٹ کا اسپیڈ اسٹار بنادیا

تیز گیند کرنے کے جنون نے شیر علی کو ڈس ایبلڈ کرکٹ کا اسپیڈ اسٹار بنادیا

عمر شاہین

پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کو دنیا بھر میں وہاں کے غیور ،جری اور جنگجولوگوں کے حوالے سے شہرت حاصل ہے ،کھیلوں کی بات کی جائے تو اس خطے نے دنیا کو کئی نامور اسکواش کھلاڑی دیے جبکہ وہاں سے کرکٹرز بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے ۔ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ بھی اس معاملے میں خوش قسمت رہی اور اسے بھی اس خطے سے کئی با صلاحیت اور بہترین کرکٹر ملے جن میں سے ایک نام شیر علی آفریدی کا بھی ہے ،جنہوں نے پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کا فاسٹ بالنگ کا شعبہ مضبوط کیا ہوا ہے ،پاکستان کے اسپیڈ اسٹارشعیب اختر کو آئیڈیل بناکر نوجوانی میں کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھنے والے اس پختون سپوت کی ایک ٹانگ مصنوعی ہے ،اس کے باوجود وہ کسی نارمل فاسٹ بالر کی طرح جب اپنے بالنگ اسٹارٹ سے بھاگتا ہے تو وہ لمحہ انتہائی خوب صورت ،دل کش اور قابل دید ہوتا ہے ۔ بالنگ کے دوران شیر علی کا ایک ایک ایکشن معروف روسی ناول نگار’’استانیو کووچ ‘‘کے ہیرو ’’میکسمکا‘‘ کی یاد دلاتا ہے جس کی ایک ٹانگ لکڑی کی تھی اوراس نے جہازرانی کی دنیا میں کئی کارنامے انجام دے رکھے تھے ۔

شیر علی کم سنی میں مرتے مرتے زندگی کی جانب واپس آئے ۔ ’’ہوا یوں کہ دوسال کی عمر میں کچے مکان کی چھت گرنے سے بائیں ٹانگ پر گہری چوٹیں آئیں اور ٹانگ کاٹ دی گئی‘‘ ۔ انہوں نے بتایا ۔ ’’ میں ایک گھنٹہ ملبے میں دبا رہا ،مجھے اللہ نے دوبارہ زندگی دی ،جس پر میں اس کا بہت شکر گزار ہوں ۔ بعد میں پانچ چھ سال بعد مجھے مصنوعی ٹانگ لگا ئی گئی ، میں نے جلد ہی اس مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلنے پھرنے اور بھاگنے دوڑنے میں مہارت حاصل کر لی تھی ۔ میرابچپن لوگوں کی باتیں اور طعنے سنتے ہوئے گزرا ۔ میں ایسی باتوں سے دلبر داشتہ ہو جایا کرتا تھا ۔ مجھے بچپن سے والی بال کھیلنے کا شوق تھا لیکن یہاں بھی مجھے والی بال کھیلنے کو نہیں ملتی تھی مجھے کہا جاتا تھا کہ آپ معذور ہو، نہیں کھیل سکتے ،ایسا نہ ہو آپ کی دوسری ٹانگ بھی ضائع ہو جائے ‘‘ ۔

ان تمام باتوں کے باوجود شیر علی آفریدی والی بال کورٹ میں مستقل پریکٹس کیا کرتے ،گو کہ ایسی باتوں سے وہ مایوس اور پریشان ہو جایا تے لیکن انہوں والی بال کورٹ جانا نہیں چھوڑا ،اسی طرح اسکول کی تعلیم کے دوران بھی لوگ ان پر آوازے کستے کہ آپ گھر بیٹھو اسکول جا کر کیا کروگے ;238;صرف ان کے پی ٹی آئی ٹیچر سجاد صاحب نے ان کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی اورانہیں آگے بڑھ کر حالات کا مقابلہ کرنے کی تلقین کی ۔ ان کی نصیحت اور گھر والوں کی جانب سے ملنے والی سپورٹ نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ انٹر نیشنل کرکٹر بن گئے ،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باڑہ (فاٹا)سے تعلق رکھنے والے شیر علی کو بچپن میں کرکٹ کے بجائے والی بال کھیلنے کا شوق تھا اور ان کی تمام اسکول لاءف اسی کھیل کے گرد گھومتی ہے ،میٹرک کے امتحان کے دوران وہ وقت گزاری کے لئے ایک کرکٹ میچ دیکھنے کےلیے اسکول کے قریب واقع کرکٹ گراءونڈ چلے گئے جہاں سے انہیں کرکٹ کا شوق ہوا اور انہوں نے فاسٹ بالر بننے کی ٹھان لی ۔

دراصل کرکٹ گراءونڈ کی خوبصورتی اور اس پر گیند کرنے کے لئے بھاگتے ہوئے فاسٹ بالر نے ان کے دل میں گھر کر لیا تھا ۔ ان دنوں دنیائے کرکٹ میں فاسٹ بالر شعیب اختر اور شین بانڈ کے چرچے تھے ،شیر علی آفریدی نے شعیب اختر کو کاپی کرنا شروع کیا اور شین بانڈ اسٹائل سے اپنا بالنگ ایکشن ڈیولپ کیا ۔ میٹرک امتحان کے بعد قبائلی علاقہ جات میں کشیدہ حالات کے باعث نقل مکانی کر کے پشاور آگئے ۔ جہاں سے انہوں نے باقاعدہ کرکٹ کھیلنا شروع کی ۔ ڈس ایبلڈ ہونے کے باوجود وہ نارمل ٹیموں کی جانب سے کھیلتے رہے اور اپنی فاسٹ بالنگ کی صلاحیتوں میں مزید نکھار لاتے گئے،اس وقت ان کی اسپیڈ135کلومیٹر زسے اوپر تھی ۔ ان کے کرکٹ کیرئیر کو نکھارنے میں کوچ علی ہوتی ،علی ا کبر شنواری ،ساجد شاہ اور ایم حشمت نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی اور سپورٹ کیا ۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے انٹر نیشنل کرکٹ میں 18وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں جبکہ بیٹنگ میں بھی کئی قابل قدر اننگز کھیل کر پاکستان کو فتح سے ہم کنار کیا، ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کی وکٹوں کی تعداد 30ہے جبکہ بیٹنگ میں ان کا بہترین اسکور48رنز ہے جس سے ان کی آل راءونڈ صلاحیتوں کا بھر پور اظہار ہوتا ہے ۔

پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے آغاز کے بعدانہوں نے اسلام آباد کی جانب سے ٹرائلز دیے اور منتخب ہو گئے ۔ اس کرکٹ کے ابتدائی دنوں میں انہیں اسلام آباد کے کوچ محمد طاہر نے بہت حوصلہ دیا ان کی بالنگ صلاحیتوں میں نکھار لانے کے لئے ان کے ساتھ کام کیا ،اپنی پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ منعقدہ کراچی میں شیرعلی آفریدی نے کمال بالنگ کا مظاہرہ کیا اور اپنی ٹیم کو کئی میچز جتوائے ۔ شین بانڈ سے مماثلت رکھنے والے بالنگ ایکشن اور پھر شعیب اختر جیسا بننے کی کوشش نے انہیں پہلی ہی چیمپئن شپ میں اپنے ہم عصر کرکٹرز میں ممتاز بنا دیا ۔ بہت جلد وہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں بھی منتخب ہوگئے جہاں ان کو متواتر مواقع بھی ملے ۔ ’’یہ سب مجھے خواب جیسا لگتا تھا ‘‘ ۔ شیر علی آفریدی نے آبدیدہ ہوتے ہوئے بتایا ۔ ’’ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا ہے کہ میں نے بہت کم کرکٹ کھیل کر پاکستان کلر زیب تن کر لیا تھا ،مجھے ان گراءونڈز میں کرکٹ کھیلنے کو ملی جس کے بارے میں لاکھوں لوگ خواب ہی دیکھتے ہیں ‘‘ ۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کی مسلسل عمدہ پرفارمنس پر انہیں فاٹا کی ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا ،جس کے بعد انہوں نے فاٹا کی ٹیم کو ایک عمدہ کمبی نیشن میں تبدیل کیا ۔ اب فاٹا کی ٹیم کو پاکستان کی ڈس ایبلڈ کرکٹ میں ’’جائنٹ کلر ‘‘ قرار دیاجاتا ہے ۔ شیر علی آفریدی انگلینڈ میں بھی کرکٹ کھیل چکے ہیں جس پر وہ پی ڈی سی اے کے بھی بہت مشکور ہیں ۔ ’’ انگلینڈ میں کھیلنا میری زندگی کا بہت یادگار لمحہ تھا ‘‘ ۔ انہوں نے بتایا ۔ ’’انگلینڈ میں میری بالنگ دیکھ کر تماشائی حیرت کرتے اور میرے پاس آکر میری ٹانگ کو دیکھتے جو مصنوعی ہے ،انہیں یقین نہیں آتا کہ کوئی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ بھی اس قدر تیز بالنگ کر سکتا ہے ۔ میری کوشش ہے کہ میں تیز سے تیز گیند کروں اور اپنے ہیرو شعیب اختر کی اس معاملے میں تقلید کروں ،مجھے ےقین ہے میں تیز سے تیز گیند کر سکتا ہوں ‘‘

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *