فیصل آبادریجن میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کی پہچان ،واصف الرحمان

فیصل آبادریجن میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کی پہچان ،واصف الرحمان

عمر شاہین

پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے تمام کھیلوں کے لئے قدرتی اور بہترین ٹیلنٹ وطن عزیز کو ہر دور میں ملتا رہاجس نے ہر سطح پر اپنا لوہا منوایا ،پاکستان میں جب فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کا آغاز ہوا تو فیصل آباد میں اس طرز کرکٹ کے فروغ کے لئے پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کی نظر انتخاب جس شخص پر پڑی اس نے اپنے کام ،اخلاص ،ڈس ایبلٹی کرکٹ کے فروغ کے لئے سچی لگن اور اپنی محنت سے ثابت کر دیا کہ پی پی ڈی سی اے کا انتخاب غلط نہیں تھا ۔ ڈس ایبلٹی کرکٹ میں آنے سے قبل واصف الرحمان پیرا گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کر کے نام کما چکے تھے اور یہ کہ وہ فیصل آباد کے اسپورٹس حلقوں میں اپنی محنت اور اسپورٹس کے جنون کے حوالے سے پہلے ہی کافی معروف تھے ۔ واصف الرحمان خود بھی فزیکل ڈس ایبلڈ شخص تھے اس لئے کسی دوسرے ڈس ایبلڈ کھلاڑی کی مشکلات کو بخوبی سمجھ سکتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ڈس ایبلڈ کرکٹ کے آغاز میں ہی فیصل آباد ریجن کی ٹیم چند ہفتوں میں تشکیل دے کراسے پہلی نیشنل چیمپہئن شپ کے لئے تیار بھی کر لیا تھا ۔

’’کسی بھی نئے گیم یا کسی گیم کی نئی شکل کو متعارف کروانے اور اسے مقبول بنانے میں وقت لگتا ہے ‘‘ ۔ واصف الرحمان نے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا ۔ ’’ آج سے 13سال پہلے جب رابطوں کے ذراءع بھی محدود تھے ،فیصل آباد اور گردونواح میں ڈس ایبلٹی کے حامل کرکٹرز کی تلاش بہت مشکل کام تھا ،ہم گاءوں گاءوں جاتے تھے اور کرکٹرز کو تلاش کرتے تھے ۔ جہاں سے بھی اطلاع ملتی کہ فلاں گاءوں یا قصبہ یا دیہہ میں کوئی ڈس ایبلڈ لڑکا ہے جسے کرکٹ کا شوق بھی ہے تو ہم وقت ضائع کئے بغیر وہاں جاتے ،اس کے والدین سے ملاقات کرتے ،انہیں مکمل بریف کرتے کہ پاکستان میں اب ڈس ایبلٹی کرکٹ شروع ہونے جا رہی ہے اورہم آپ کے بچے کو اس کرکٹ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔ کئی لوگ تو ہماری بات پر یقین بھی نہیں کرتے تھے اور حیلے بہانوں سے ہ میں ٹال بھی دیا کرتے ،لیکن ہم بھی مستقل مزاجی سے ان سے رابطے میں رہتے ،آخر کار ان کو یقین آجاتا اور وہ اپنے بچے کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دیتے ‘‘ ۔

’’ابتدائی دور کی جدوجہد لفظوں میں بیان کرنا آسان ہے لیکن اس وقت جو ہم نے مشکلات اٹھائیں وہ میں یا میرے ساتھی ہی جانتے ہیں ‘‘ ۔ واصف الرحمان مسکراتے ہوئے پھر بتانے لگے ۔ ’’2008 میں جب فیصل آباد میں ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے ٹرائلز ہوئے تو میں نے امیر الدین انصاری صاحب سے کہا کہ میں ایک اسپورٹس مین ہوں اگر آپ مجھے ذمہ داری دیں تو میں فیصل آباد ریجن کی ٹیم بنادوں گا ،جس پر انہوں نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا اور میں نے وعدے کے مطابق چند ہی ہفتوں میں ریجن کی ٹیم تشکیل دے ڈالی ،یہ الگ بات کہ اس کے لئے میں نے کتنی مشقت کی ۔ در اصل جب آپ کسی بات کا ارادہ کر لیتے ہیں ناں ! تو پھر آپ کے راستے بھی آسان ہوتے چلے جاتے ہیں ،اور قدرت بھی آپ کی مدد کرتی ہے ،چونکہ میں خود بھی کھیلتا تھا اور میں نے اپنے فیصل آباد ریجن کی ابتدا میں قیادت بھی کی اس لئے مجھے ایک بار ٹیم تشکیل دینے کے بعد دوبارہ کبھی کھلاڑیوں کے حوالے سے مشکلات پیش نہیں آئیں ‘‘ ۔

’’فیصل آباد میں کرکٹ کے جنون نے بھی میرا کام آسان کر دیا تھا اور مجھے کئی بہترین کرکٹرز ملتے چلے گئے ‘‘ ۔ ایک ٹانگ میں کم زوری کے باوجود عزم و ہمت کی بلندیوں کو چھونے والے واصف الرحمان بتاتے رہے ۔ ’’ میں نے پیرا اولمپک اسپورٹس میں پاکستان کی نمائندگی کر رکھی ہے ، میں ایتھلیٹکس کے چار سے پانچ ڈسپلن میں شرکت کرتا تھا ،فیصل آباد کے تمام تعلیمی ادارے اور اسپورٹس حلقے بھی مجھے بخوبی جانتے ہیں کہ میں اسپورٹس کا کس قدر جنون رکھتا ہوں ،اس کے باوجود کہ میں ڈس ایبلڈ ہوں ، میں نے یونیورسٹی لیول پر اور اپنے ڈسٹرکٹ اور ریجن لیول پر ایتھلیٹکس اور دیگر کھیلوں میں نارمل کھلاڑیوں کو بھی ٹف ٹائم دیا ،درجنوں گولڈ ،سلور اور برانز میڈلز میرے پاس ہیں ،یونیورسٹی کے اساتذہ کرام میری مثالیں دیا کرتے تھے کہ یہ کبھی ہمت نہیں ہارتا ،میری اسی عادت نے مجھے ڈس ایبلٹی کرکٹ کو نا صرف فیصل آباد بلکہ پاکستان بھر میں فروغ دینے کے لئے بہت مدد دی اور اب رزلٹ آپ کے سامنے ہے ۔ ابتدائی دور میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم اور پی پی ڈی سی اے کے سیکریٹری امیر الدین انصاری کی قدم قدم پر رہنمائی نے مجھے اپنے اہداف کے حصول میں بہت مدد دی ‘‘ ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *