لاہور میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کے سمبل اور وقار کی علامت :جاوید اشرف(دوسرا اور آخری حصہ)

لاہور میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کے سمبل اور وقار کی علامت :جاوید اشرف(دوسرا اور آخری حصہ)

’’ان کے چہروں پر جو چمک اور مسرت میں نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے دورے کے دورن محسوس کی میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ‘‘ ۔ کرکٹ کے میدان میں مشکل سے مشکل فیصلہ چند سیکنڈز میں کرنے والے جاوید اشرف پر جوش انداز میں بتاتے رہے ۔ ’’ میرے پاس و ہ الفاظ نہیں کہ میں اپنی اس وقت کی کیفیت کو بیان کر سکوں ،یہ میری زندگی کا پہلا موقع بھی تھا کہ میں نے جسمانی معذوری کے حامل افراد کے لئے کوئی ایسا بڑا کا م کیا تھا جس کی خوشی میں آج تک اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں اور ان لمحات کی سرشاری مجھے آج بھی اپنی روح میں محسوس ہوتی ہے ۔ جب ہمارے ڈس ایبلڈ کرکٹرز نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ کر رہے تھے تو پاکستان کرکٹ ٹیم بھی ٹریننگ میں مصروف تھی ،ان کھلاڑیوں نے پہلی بار پاکستان کرکٹ ٹیم کے کرکٹرز کو اتنے قریب سے دیکھا تھا ،آپ یقین کریں کہ قومی کرکٹرز نے بھی ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی اس ٹریننگ سیشن میں بھر پور حوصلہ افزائی کی تھی اور ان کو بیٹنگ اور بالنگ ٹپس بھی دئے تھے ،جو ڈس ایبلڈ کرکٹرز اس ٹریننگ سیشن میں شریک ہوئے تھے ،یہ ان کی زندگی کی بہترین یادوں میں سے ایک یاد ہے ‘‘ ۔

ٓ’’آج کے دور میں انسانیت یہی ہے کہ دوسروں کو خوشی دے کر خوش رہا جائے ،یہ آسان سا فارمولا ہے جسے لوگوں نے فراموش کر دیا ہے ۔ جب میں پاکستان ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوا تھا تو میرے ذہن میں یہی بات تھی کہ جسمانی معذوری کے حامل افراد اور کھلاڑیوں کی دل و جان سے خدمت کروں گا ‘‘ ۔ کرکٹ کی اونچ نیچ سے ذاتی تجربہ کشید کرنے والے جاوید اشرف نے ماضی میں جھانکتے ہوئے کہا ۔ ’’مجھے یاد ہے جب نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے پرےکٹس کا آغاز کیا تھا تو پاکستان ٹیم کے کھلاڑی اپنی پریکٹس چھوڑ کر ان کا کھیل دیکھنے آگئے تھے ،انہوں نے خاص طور پر فرحان اور مطلوب کے کھیل کو دیکھا اور حیران رہ گئے کہ کوئی بالر اس طرح بھی گیند کر سکتا ہے انہوں نے ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کی تھی ۔ میں نے پاکستانی کرکٹرز کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ ہ میں بھی ان کھلاڑیوں کے عزم وولولے سے بہت حوصلہ ملا ہے اور یہ سبق بھی کہ زندگی کے میدان میں ہار تسلیم نہیں کرنی اور کسی بھی صورت میدان نہیں چھوڑنا ۔ یہ باتیں اور پورا منظر نامہ میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہے اور میں یہ واقعہ اپنے کھلاڑیوں اور ٹیم کا مورال بلند کرنے کے لئے اکثر بتاتا رہتا ہوں ‘‘ ۔

’’لاہور سے بھی پاکستان ڈس ایبلٹی کرکٹ ٹیم کو کئی با صلاحیت اور ہونہار کرکٹرز ملے ہیں جن میں عبد اللہ اعجاز ،میجر حسنین عالم اوراشفاق شاکر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں ‘‘ ۔ جاوید اشرف بتاتے رہے ۔ ’’ان میں بہترین آل راءونڈرز شامل ہیں اور ایسے بھی کھلاڑی ہیں جنہوں نے ڈس ایبلٹی کرکٹ کی پہلی سنچری اسکور کی ہے ،اشفاق شاکر اس وقت لاہور کی ٹیم کے کپتان اور پاکستان کے بہترین ڈس ایبلڈ فیلڈر ہیں ۔ ڈس ایبلٹی کرکٹ کے آغاز سے اب تک لاہور سے درجنوں کھلاڑی نیشنل کرکٹ کھیل چکے ہیں ، میں کھلاڑیوں کی تلاش ہمہ وقت جاری رکھتا ہوں ،حال ہی میں ایک فاسٹ بالر ملا ہے جس کو گروم کیا جا رہا ہے امید ہے وہ پاکستان ڈس ایبلٹی کرکٹ ٹیم کا اثاثہ ثابت ہوگا ۔ شروع شروع میں ڈس ایبلڈ کھلاڑیوں کی تلاش کے حوالے سے مشکلات ضرور پیش آتی تھیں لیکن اب معاملہ بر عکس ہے ،جب سے پی پی ڈی سی اے کا سوشل میڈیا متحرک ہوا ہے اب کھلاڑی خود ہم سے رابطہ کرتے ہیں اپنے بارے میں بتاتے ہیں اور ٹرائلز کا پوچھتے رہتے ہیں ،سو اس طرح کھلاڑیوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ‘‘ ۔

’’پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کا مستقبل بہت روشن ہے، نیشنل ٹی20کرکٹ چیمپئن شپ کے کامیاب انعقاد کے بعد اب ملک بھر کے کھلاڑیوں کو اگلے ایونٹ کا شدت سے انتظار ہے ‘‘ ۔ جاوید اشرف ایک بار پھر گویا ہوئے ۔ ’’یہ پی پی ڈی سی اے کی مخلصانہ کوششیں اور ڈس ایبلٹی کرکٹرز کے ساتھ دوستانہ اور برابری کی بنیاد پر استوار ہونے والا رشتہ ہی ہے ،جو سلیم کریم اور امیر الدین انصاری ڈس ایبلڈ کرکٹرزکی دعاءوں میں یاد رکھے جاتے ہیں ۔ ان ہی دعاءوں کی وجہ سے پی پی ڈی سی اے ترقی کی راہ پر گامزن ہے ،اورایسا اس لئے ہے کہ روز اول سے ہی پی پی ڈی سی اے کی پہلی ترجیح ڈس ایبلڈ کرکٹر ز ہی رہے ہیں جبکہ دوسرے اداروں اور اسپورٹس ایسوسی ایشنز میں ایسا نہیں ہے ۔ میں جب ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو اچھے گراءونڈز پر کھیل کر خوش ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ میرے اپنے بچے ہیں اور میں ایک باپ کی حیثیت سے ان کی خوشی کو محسوس کرتا ہوں ،یہی دراصل وہ محسوسات ہیں جو ہ میں حقیقی خوشی دیتے ہیں ۔ میں دعا گو ہوں کہ پی پی ڈی سی اے کا یہ سفر کامیابی کے ساتھ جاری و ساری رہے ،نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کی پہچان بننے والے لوگ کامرانی کی نئی منازل سے آشنا ہوں ‘‘ ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *