پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (تیرھواں حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (تیرھواں حصہ)

عمرشاہین

پاکستان کی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم انگلینڈ پہنچی تو اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔پی ڈی سی اے کے بانی سلیم کریم اور سیکریٹری امیر الدین انصاری کی سرشاری کی کیفیت بیان سے باہر ہے،بارہ سال قبل انہوں نے جس کرکٹ کی ابتداکراچی میں چند ڈس ایبلڈ کرکٹرزاور اپنے مخلص دوستوں کے ساتھ کی تھی آج اس کا بہترین ثمر اس صورت میں مل رہا ہے کہ پاکستان کے ڈس ایبلڈ کرکٹرز پاکستان کا سبز بلیزر پہنے انگلینڈ کے ائیر پورٹ پر موجود تھے اور ایک بہترین تین ملکی کرکٹ سیریز ان کی منتظر تھی۔پاکستان ٹیم میں شامل تمام کھلاڑیوں اور آفیشلز کے چہرے بھی اندرونی مسرت سے تمتمارہے تھے۔کھلاڑی ائیر پورٹ سے باہر نکل کر انگلینڈ کی اس سرزمین کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے جہاں کے لوگوں نے بر صغیر پر صدیوں حکومت کی تھی،وہ تمام باتیں سچ ہونے جا رہی تھیں جو ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے پاکستان میں تربیتی کیمپ کے دوران آپس میں جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے سے کی تھیں۔

ائیر پورٹ پر موجود دنیا بھر کے ممالک کے لوگ جب پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کو سبز بلیزر میں دیکھتے اور انہیں علم ہوتا کہ یہ کرکٹ کی ٹیم ہے تو ان کی نظروں میں ستائش کی جھلک نظر آتی اور وہ داد بھری نظروں سے مسکرا کر کھلاڑیوں سے رسمی علیک سلیک کرتے رہے۔بعض افراد نے پاکستان کے کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔پی ڈی سی اے کے دیرینہ بانی رکن کے مطابق”ائیر پورٹ پر موجود ہر ڈس ایبلڈ کرکٹر خود کو پاکستان کا سپر اسٹار سمجھ رہا تھا اور یہ بات اس کی باڈی لینگویج بھی بخوبی بتا اور سمجھا رہی تھی“۔انہوں نے بتایا۔”آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن میں اپنے دل کی بات آپ کو بتاتا ہوں،جس قدر اعتماد،خوشی،مسرت اور خود پر یقین میں نے اس روز ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی آنکھوں،لہجے اور باڈی لینگویج میں دیکھا،اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا،ان کی خوشی سے زیادہ ہمیں خوشی تھی کہ ہمارے لگائے گئے پودے کی شاخیں اب یورپ تک پھیل گئی ہیں“۔

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ کے پہلے دورے کے دوران وی آئی پی پروٹو کول ملا،کھلاڑیوں اور آفیشلز کی کلئیرنس کے بعد انہیں وورسٹر شائر کاؤنٹی لے جایا گیا جہاں سیریز کے میچز کھیلے جانے تھے۔کھلاڑیوں نے ائیر پورٹ اور بس کے سفر کے دوران ہی اپنی کئی تصاویر اور سیلفیز بناکر پاکستان میں اپنے پیاروں کو ارسال کر دی تھیں۔کھلاڑیوں کی بس کے سفر میں آپس میں بات چیت،مسرت اور خوشی سے بھر پور قہقہے اس بات کی غمازی تھے کہ وہ بہت انجوائے کر رہے ہیں،انہیں کرکٹ کے ساتھ ساتھ سیر و تفریح کے مواقع بھی ملنے والے تھے۔کئی ایک نے تو یہ تک ڈیسائڈ کر لیا تھا کہ وہ رات کے کھانے کے بعد کتنی چہل قدمی کرے گا اور یہ کہ یہاں کی زراعت کے حوالے سے معلومات لینے کی کوشش کرے گا تاکہ وطن واپس جا کر اپنے خاندان کو انگلینڈ میں ذراعت کے حوالے سے معلومات بہم پہنچا سکے۔ایک کھلاڑی نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یہاں کے فاسٹ فوڈ پر اپنی معلومات میں اضافہ کرے گا۔کئی ایک نے کرکٹ گراؤنڈز پر اپنی زیادہ سے زیادہ تصاویر بنانے اور ایک نے اپنے بچوں کے لئے یہاں سے عمدہ کھلونے خریدنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔

ٹورنامنٹ کے منتظمین نے پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کی رہائش کا انتظام شہر سے قدرے دور کیا تھالیکن اس پر بھی کھلاڑی خوش تھے،انہیں بس کے ذریعے ہوٹل سے گراؤنڈ جانا اور پھر میچ کے بعد گراؤنڈ سے ہوٹل جانا بہت اچھالگتا تھا۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ڈسپلن کے حوالے سے بہت منظم تھے اور یہ کہ پورے دورے میں انہوں نے کسی شکایت کا موقع ٹیم انتظامیہ کو نہیں دیا تھا۔جیسا کہ میں پہلے تحریر کر چکا ہوں کہ پی ڈی سی اے کے عہدے داروں نے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی اس حوالے سے بہترین تربیت کر رکھی تھی،انہیں بیرون ملک کے دوروں پر ڈسپلن پر کاربند رہنے کی خصوصی تلقین بھی تھی اور یہ کہ ان کو وہ تمام باتیں بتائیں اور سمجھائی گئی تھیں جو کسی بھی ملکی ٹیم کو سکھائی جاتی ہیں۔صحافی ہونے کی حیثیت سے بھی میں اس بات کا گواہ ہوں کہ پی ڈی سی اے کا کردار ان کھلاڑیوں کے لئے اس ماں کی طرح کا ہے جو اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرتی ہے کہ انہیں معاشرے میں وہ عزت و مقام ملے جو بہترین اخلاق اور عادات والوں کو ملتا ہے۔(جاری ہے)

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *