پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (نواں حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (نواں حصہ)

عمرشاہین

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کی زیر نگرانی پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے تمام 16ریجنز میں ڈس ایبلڈ کھلاڑیوں کی بہت بڑی کھیپ تیار ہو چکی تھی ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ڈس ایبلڈ کرکٹ کے دس سال مکمل ہونے اور کھیل کا معیار پہلے سے بلند ہونے پر پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹرز ، کرکٹ کی باریکیوں کو اورخود سمیت دیگر کھلاڑیوں کی پرفارمنس کو بخوبی سمجھنے لگ گئے تھے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ نارمل کرکٹ کے بعد سب سے زیادہ مضبوط ہورہی تھی اور ساتھ ساتھ اس کے قومی اور ریجنل کھلاڑیوں کے پول میں بھی متواتر اضافہ ہو رہا تھا ۔ اپریل 2016 میں ملک کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ڈس ایبلڈ ٹی20پینٹینگولر کپ کا انعقاد کراچی میں کیا گیا ۔ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے کام اور اس کی روز افزوں ترقی سے متاثر ہو کر اب نئے اسپانسر بھی پی ڈی سی اے کے ساتھ جڑتے جا رہے تھے ۔ مذکورہ بالا پینٹینگولر کپ بھی نئے اسپانسر ز کے ساتھ کامیابی سے منعقد کیا گیا ۔

پی ڈی سی اے کے کلینڈر ائیر میں شامل اس مستقل ٹورنامنٹ کےلیے کھلاڑیوں کا انتخاب ریجنل کوچز کے ذریعے کیا جاتا ہے اور یہ کہ کسی بھی ریجن کا کھلاڑی کہیں سے بھی کھیل سکتا ہے ۔ مرکزی سلیکشن کمیٹی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کون سا کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں کہاں سے کھیلے گا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ تمام ٹیموں کے کھلاڑیوں کا انتخاب اس بات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی ٹیم کمزور نہ ہو ۔ تمام ہی ٹی میں ہم پلہ ہوں تاکہ بہترین اور مسابقتی کرکٹ کا انعقاد کیا جا سکے ۔ ہر کھلاڑی کھل کر اور بہترین ٹیم کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکے ۔

پی ڈی سی اے نے اس ٹورنامنٹ کے ہر میچ کا مین آف دی میچ ایوارڈ دینے کےلیے ایسے افراد کا انتخاب کیا تھا جو پی ڈی سی اے کو کسی بھی مرحلے پر سپورٹ کرتے تھے ۔ یہ پی ڈی سی اے کی ایک اور خوبی ہے کہ وہ ساتھ دینے والوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے اور سب سے بڑھ کر اس کی عزت افزائی کا سلیقہ اور طریقہ جانتی ہے ،یہی وہ چیز ہے جس نے پی ڈی سی اے کو ملک بھر میں بہت ممتاز کیا اور عزت و وقار دیا ۔ اس ٹورنامنٹ میں کل11میچز کھیلے گئے ۔ 10میچز کے بعد ٹاپ کی دو ٹیموں نے فائنل میں جگہ بنائی ۔ اس ٹورنامنٹ کا فارمیٹ اس طرح کا بنایا جاتا تھا کہ ہر ٹیم کو جیت اور ٹورنامنٹ میں رہنے کے مواقع برابری کی بنیاد پر ملتے تھے ۔ ایونٹ کے میچز نیشنل اسٹیڈیم کراچی ،راشد لطیف کرکٹ اکیڈمی گراءونڈ اور یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس جیسے بہترین گراءونڈز میں کھیلے گئے ،جہاں کھیل کر پاکستان کے دور دوراز کے علاقوں سے آنے والے ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے بہت انجوائے کیا ۔

ان میں کئی کرکٹرز تو ایسے تھے جنہوں نے پہلی بار نیشنل اسٹیڈیم دیکھا تھا اور پہلی بار ہی میں وہ بطور ٹیم پلیئر یہاں موجود تھے ،کھلاڑیوں پر گزرنے والے ان پر مسرت لمحات کا راقم الحروف خود بھی گواہ ہے ۔ پی ڈی سی اے کے متعدد ایونٹس میں بیرون شہر سے آنے والے نئے کھلاڑیوں کے دمکتے چہرے بتادیتے ہیں کہ ان کی نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پہلی انٹری ہے ۔ یقینی طور پر یہ پی ڈی سی اے ہی کی مرہون منت ہے کہ ڈس ایبلڈ کرکٹرز واپس اپنے شہر جا کر اپنے گھر والوں کو یا اپنے دوستوں کو فخر سے بتائیں کہ انہوں نے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں میچ کھیلا اور یہ کہ انہوں نے اس فیلڈ پر قدم رکھا جہاں دنیا کے کئی نامور کرکٹرز کھیل چکے تھے ۔ انہوں نے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ڈریسنگ روم شیئر کیا اور زندگی بھر یاد رہنے والے لمحات گزارے ۔ ان وکٹوں پر بیٹنگ اور بالنگ کی جن کا ہر نارمل کرکٹر بھی خواب دیکھتا ہے ۔ اب یہ کاتب تقدیر پر منحصر ہے کہ وہ کس کو اس اعزاز سے نواز دے اور کس ذریعے سے نوازے ۔

ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف کرکٹ آرگنائزر اور پہلے دن سے ہی پی ڈی سی اے کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے والے جمیل کامران ٹورنامنٹ سیکریٹری تھے ،ان کی نگرانی میں تمام میچزکا ہموار انداز میں انعقاد ہوا ۔ راءونڈ میچوں کے اختتام پر پوائنٹس ٹیبل پر پہلی اور دوسری پوزیشن رکھنے والی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی ٹیموں کے درمیان نیشنل اسٹیڈیم کراچی پر فائنل کھیلا گیا جس میں خیبر پختونخواہ نے دلچسپ مقابلے کے بعد تین وکٹوں سے کامیابی سمیٹ کر ایونٹ اپنے نام کر لیا ۔ بلوچستان نے 141رنز بنائے جس میں زبیر سلیم کے56،نصر اللہ خان کے33اور جہانزیب ٹوانہ کے 20رنز بھی شامل تھے ۔ فیاض احمد اور محمود اللہ نے تین تین وکٹلیے ۔ جواب میں فاتح ٹیم کے پی نے واجد عالم کے50،ظفر حسین کے29اور ریحان غنی کے22رنز کی بدولت دو گیند قبل ہدف حاصل کیا ۔ زبیر سلیم اور عبداللہ نے دو دو وکٹلیے ۔ واجد عالم مین آف دی میچ قرار دیے گئے تھے ۔ (جاری ہے)

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *