پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (دسواں حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (دسواں حصہ)

عمرشاہین

اگست 2016 میں پی ڈی سی اے نے کراچی میں پانچویں نیشنل ڈس ایبلڈ ٹی20کرکٹ چیمپئن شپ منعقد کی تو اس میں تمام16ریجنز کے ٹاپ کھلاڑیوں نے شرکت کی ،اچھی بات یہ تھی کہ ان ٹاپ کرکٹرز میں بھی اکثریت نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل تھی ۔ 14اگست سے شروع ہونے والی اس نیشنل چیمپئن شپ کے افتتاحی روز اس وقت انتہائی خوب صورت،جذباتی اورولولہ انگیز منظر دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر گیا جب تمام 16ریجنز کے کھلاڑیوں اور آفیشلز نے انتہائی نظم و ضبط کے پورے پاکستان کی آواز میں آواز ملا کر قومی پرچم کشائی کی تقریب میں قومی ترانہ ایک ساتھ پڑھا ۔ اس موقع پر موجود ہر ڈس ایبلڈ کرکٹر خود کو پاکستان کا ایک قابل فخر شہری اور اس معاشرے کا اہم حصہ سمجھ رہا تھا اور اسے وہی عزت ،مقام اور مرتبہ حاصل تھا جو کسی بھی معزز پاکستانی شہری کو ملا ہوا تھا ۔ پی ڈی سی اے کا یہ واقعی قابل فخر اور قابل تقلید کارنامہ ہے کہ اس نے ان افراد کو کرکٹ کے ذریعے وہ قدر و منزلت دی جو عام حالات میں ان ڈس ایبلڈ افراد کے حصے میں کبھی نہیں آ سکتی تھی ۔

اس نیشنل چیمپئن شپ کی اہمیت اسلیے بھی بہت زیادہ تھی کہ اس میں کئی ریجنز سے نئے اور نوجوا ن کھلاڑی شرکت کر رہے تھے ،کئی سینئر ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے اپنے دس سال مکمل کرلیے تھے اور اب ان کا کھیل بھی ذوال پذیر تھا ۔ اسلیے بھی متعدد ریجنز کے کوچز کی نظریں نوجوان خون پر لگی ہوئی تھیں ۔ اس تناظر میں سینئر کھلاڑیوں کو اس چیمپئن شپ میں اپنی بقا کی جنگ لڑنا تھی جس سے تمام صورت حال بہت دل چسپ ہو گئی تھی ۔ ملتان کی جانب سے جہانزیب ٹوانہ اور مطلوب قریشی،پشاور سے نہار عالم ،عبداللہ ،کراچی سے راءو جاوید ،اقبال حسین ،کوءٹہ سے واقف شاہ ،لاہور کے اشفاق شاکر ،اسلم پرویز ،فیصل آباد کے ریحا ن غنی بدستور بہترین کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے اس کے باوجودنوجوان کھلاڑیوں کےلیے میدان خالی تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کریں اور خو د کو منوائیں ۔

اسی چیمپئن شپ کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے والے کرکٹرز کو اختتامی تقریب میں موٹرسائیکل بطور انعام دی گئی جو کہ ا س سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔ پانچ سال قبل کرکٹ ٹورنامنٹس میں موٹر سائیکل بطور انعام دینا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی اور کراچی کے رمضان ٹورنامنٹس میں بھی یہ چیز آچکی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن نے بھی اس جانب قدم بڑھایا اور اپنے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے لئے بہت دوڑ دھوپ کے بعداس کا انتظام کیا اور جب پی ڈی سی اے کی جانب سے اس بات کا ا علان کیا گیا کہ چیمپئن شپ کے بہترین کھلاڑیوں کو موٹر سائیکلیں انعام میں دی جائیں گی تو ان کی خوشی ،جوش وخروش اور کچھ کر دکھانے کا جزبہ قابل دید اور قابل ستائش تھا ۔ ہر ڈس ایبلڈ کرکٹر نے ،خواہ وہ سینئر ہو یا جونیئر ،نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ،اسی نیشنل چیمپئن شپ میں ہ میں جہاں بیٹسمینوں کی جانب سے جارحانہ ففٹیز نظر آتی ہیں تو وہیں بالرز کی جانب سے پانچ وکٹوں کا کارنامہ بھی نظر آتا ہے ۔

پانچویں نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ کے میچز ٹی ایم سی گراءونڈ ،راشد لطیف کرکٹ اکیڈمی ،یو بی ایل گراءونڈ اورکے سی سی اے اسٹیڈیم پر ہوئے جبکہ فائنل نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا گیا ۔ 24گروپ میچوں کے بعدلاہور ،ملتان ،پشاور اور کراچی نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی ۔ پہلے سیمی فائنل میں ملتان نے لاہور کو با آسانی6وکٹوں سے شکست دے کر ٹاءٹل میچ کے لیے کوالیفائی کیا ۔ لاہور کی ٹیم130رنز ہی بنا سکی جس میں محمد شہباز کے26اور عبداللہ اعجاز کے20رنز بھی شامل تھے ۔ عمیز الرحمان ،آصف اور ماجد نے دو دو وکٹ لیے ۔ جواب میں ملتان نے16.2اوورز میں مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا مطلوب قریشی نے46اور نصر محمد نے 38رنز بنائے ۔ دوسرے سیمی فائنل میں کراچی نے پشاور کو چھ وکٹوں سے مات دی ،پہلے کھیل کر پشاور کی ٹیم 89رنز پر آءوٹ ہوئی ۔ نہار عالم نے47رنز بنائے تھے،راءو جاوید نے تین وکٹ لیے ۔ جواب میں ہوم سائیڈ کراچی 4نے وکٹ پرہدف حاصل کر لیا ،وحید خان28اور عارف رچرڈ23رنز کے ساتھ نمایاں رہے ۔ پشاور کی جانب سے گوہر علی نے دو کھلاڑیوں کو آءوٹ کیا ۔ نہار عالم مرد میدان رہے تھے ۔

فائنل بھی لو اسکورنگ ثابت ہوا جس میں ملتان نے اپنی برتری ثابت کی ،ملتان کی ٹیم ایونٹ میں ناقابل شکست رہی تھی ۔ کراچی کی ٹیم فائنل میں پہلے کھیل کر آٹھ وکٹوں پر112رنز تک محدود رہی اس کی جانب سے راءو جاوید نے33،وحید خان نے26اور ہارون رشید نے 18رنز بنائے ۔ ملتان کے زبیر سلیم نے4وکٹ لیے ۔ جواب میں ملتان نے 16.2اوورز میں دو وکٹوں پر ہدف حاصل کر لیا ۔ مطلوب قریشی نے 57اور ماجد حسین نے46رنز بنائے ۔ زبیر سلیم مین آف دی میچ قرار دیے گئے ۔ اختتامی تقریب میں چیمپئن شپ کے بہترین بالر ،بیٹسمین اور فیلڈر کو موٹر سائیکل انعام میں دی گئی ،یہ لمحات انعام وصول کرنے والوں کےلیے بہت یادگار تھے ۔ ان کے ساتھ ساتھ تمام 16ریجنز کے کھلاڑی اس چیمپئن شپ کے حوالے سے بہت سی یادیں لے کر اپنے اپنے شہروں کو واپس گئے جو آگے چل کر ان کی زندگی کا اثاثہ بھی بنی ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *