فیصل آبادریجن میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کی پہچان ،واصف الرحمان (دوسرا اور آخری حصہ)

فیصل آبادریجن میں ڈس ایبلٹی کرکٹ کی پہچان ،واصف الرحمان (دوسرا اور آخری حصہ)

عمر شاہین

واصف الرحمان بنیادی طور پر ہی اسپورٹس مین ہیں ،نصف درجن سے زائد کھیلوں میں ریجن کی سطح تک بھر پور نمائندگی کے بعد کرکٹ ان کا آخری جنون ثابت ہوا اور وہ پاکستان فزیکل ڈس ایبلڈ کرکٹ کا حصہ بننے کے بعد اسی کے ہور کر رہ گئے ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے واصف الرحمان کہتے ہیں ’’پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن نے نا صرف پاکستان میں بھر پور ڈس ایبلڈ کرکٹ کروائی بلکہ متعدد انٹر نیشنل کرکٹ سیریز کی میزبانی بھی کی اور یہ کہ پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ٹیم کو بیرون ملک دورے کروائے اور کئی انٹر نیشنل کرکٹ ٹورنامنٹس میں شرکت بھی کی ۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی ڈی سی اے کو نا صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی ایک معتبر کرکٹ ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ میں اپنے اسپورٹس حلقوں میں فخریہ پی پی ڈی سی اے کا ذکر کرتا ہوں جبکہ لوگ پی پی ڈی سی اے کے کام کی تعریف کرتے ہیں ۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب کسی دوسرے کھیل کا فرد مجھے کسی نئے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے بارے میں بتاتا ہے اور اسے ٹرائلز پر بلانے یا اس سے ملاقات کا مشورہ دیتا ہے ۔ بلا شبہ یہ آپ کے کام اور آپ کی اپنے کام سے محبت ہی ہے جو دوسروں سے آپ کو منواتی ہے ‘‘ ۔

فیصل آباد سے بھی ڈس یبلڈکرکٹر نے پاکستان کا سبز کوٹ زین تن کیا اور انٹر نیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی جو اس بات کا بھی ثبوت تھا کہ فیصل آباد کے فزیکل ڈس ایبلڈ کرکٹرز بھی صلاحیتوں اور کرکٹ کی سمجھ بوجھ میں پاکستان کے کسی بھی علاقے کے کرکٹرز سے کسی طور کم نہیں ہیں ۔ دراصل یہ واصف الرحمان ہی تھے جنہوں نے فیصل آباد اور اس کے تمام اضلاع میں اس طرز کی کرکٹ کے فروغ اور بہتر سے بہترین کھلاڑیوں کی تلاش میں دن رات ایک کیا اور پھر ریجن کی ٹیم کو منصفانہ انداز سے اس طرح تشکیل دیا کہ کسی کے بھی ساتھ کسی قسم کی نا انصافی نہ ہو ۔ ’’فیصل آباد سے بھی ہمارے کرکٹر نے پاکستان کی نمائندگی کی ہے ‘‘ ۔ واصٖف الرحمان نے یادداشت پر زور ڈالا ۔ ’’ ریحان غنی مرزا فیصل آباد سے پاکستان کے لئے منتخب ہو چکے ہیں جبکہ فیصل آباد میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کی پروموش کے لئے ریحان بھائی ،عدنان بٹ اور وقاص بھائی کا بھی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے فیصل آباد ریجن کو بہتر سے بہتر بنانے میں میری بھر پور حوصلہ افزائی کی‘‘ ۔

’’فیصل آباد کے دوردراز کے دیہات کے کھلاڑیوں کو تلاش کرنے کے بعد انہیں کرکٹ کے ساتھ ساتھ زندگی کے آداب سکھانا بھی میرا شوق ہے ،صرف انہیں ہی نہیں بلکہ میں اپنے تمام شاگردوں کو زندگی کو زندگی کی طرح جینے کے آداب سکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ‘‘ ۔ راجپوت فیملی سے تعلق رکھنے والے واصف الرحمان نے ایک بار پھر بولنا شروع کیا ۔ ’’میرے خاندان کے کئی لوگ فورسز کی اسپورٹس ٹیموں میں ہیں ،اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ میں کھیلوں کی جانب نہ آتا ۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں کھیل کے ذریعے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی خدمت کر رہاہوں ۔ انہیں زمانے کی چیرہ دستیوں اور طنز کے عجیب و غریب رویوں کا مقابلہ کرنا اور اپنے آپ کو منوانے کے طور طریقے بتا رہا ہوں ،ان کے احساس محرومی کو احساس تفاخر میں بدل رہا ہوں ،انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بننے کی تلقین کرتا رہتا ہوں ،انہیں بتا رہا ہوں کہ جن گراءونڈز پر آپ کھیل رہے ہو عام کرکٹرز وہاں کھیلنے کو ترستے ہیں ۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ میری اس خدمت کا صلہ اللہ تعالی کے پاس ہے اور مجھے کئی گنا زیادہ ہوکر ملے گا ‘‘ ۔

’’دیکھیں ! کسی بھی کھیل کا کوئی بھی کھلاڑی ہو ،اگر اس کے ساتھ انصاف کیا جائے تو وہ اپنا دوسوفیصد کھیل پیش کرسکتا ہے اور آپ اس سے بہترین پرفارمنس کی امید بھی رکھ سکتے ہیں ‘‘ ۔ کئی ایک شعبوں میں ماسٹر ڈگری رکھنے والے واصف الرحمان نے پر مغز گفتگو جاری رکھی ۔ ’’ میں خود بھی اسی سسٹم کا حصہ ہوں اور لاہور یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد فیصل آباد یونیورسٹی میں بھی زیر تعلیم رہا اور اب محکمہ تعلیم میں سینئر پوسٹ پر ہوں ،ان سب چیزوں کے ساتھ کھیل کا جنون کسی بھی موقع پر کم نہیں ہوا ، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ نے خود کو منوانا ہے تو اپنے ترکش کے تمام تیز آزمانے پڑتے ہیں ، میں نے اپنی پولیوزدہ ٹانگ کو اپنی مجبوری نہیں بنایا ،بلکہ اسی کے ساتھ ان تمام کھیلوں میں شرکت کی جو میرا دل چاہتا تھا ۔ اپنے ریجن اور پھر صوبے میں کامیابیاں سمیٹ کر پاکستان کی جانب سے دو بار پیرا اولمپک اسپورٹس کھیلنے بیرون ملک بھی گیا ،یہ سب مسلسل محنت کا ہی نتیجہ تھا اور یہی مسلسل محنت اور کبھی ہار نہ ماننے والا پیغام میں اپنے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو بھی دیتا ہوں اور اس حوالے سے ان کی ذہن سازی بھی کرتا رہتا ہوں ‘‘ ۔

’’جب آپ کسی بڑے کا م کا بیڑہ اٹھا تے ہیں تو دنیا میں دو قسم کے لوگوں سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے ایک وہ جو آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو آپ کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ‘‘ ۔ واصف الرحمان نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا ۔ ’’جس طرح مجھے اپنے اسپورٹس کیرئیر کے اولین دنوں اور پھرفیصل آبادڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کی تشکیل کے ابتدائی دنوں میں مشکلات پیش آئیں ۔ ویسی ہی مشکلات کا سامنا پی پی ڈی سی اے کے سلیم کریم اور امیر الدین انصاری نے بھی کیا ہوگا ،لیکن ثابت قدمی سے آپ کامیابیوں کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں ۔ بطور پی پی ڈی سی اے کے ریجن کو آرڈی نیٹر میں بہت پر امید ہوں کہ آنے والے وقت میں پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ مزید ترقی کرے گی ،نیا ٹیلنٹ سامنے آتا رہے گا اور پاکستان میں جلدہی انٹر نیشنل ڈس ایبلٹی کرکٹ سیریز بھی منعقد ہوگی ‘‘ ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *