پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (آٹھواں حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (آٹھواں حصہ)

عمرشاہین

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن نے 9برس کی جدوجہد کے بعد اپنی سرزمین پر بھی انٹر نیشنل کرکٹ سیریز کھیل کر ایک اور سنگ میل عبور کر لیا تھا ۔ سینئر کرکٹرز کے ساتھ اب جونیئر ڈس ایبلڈ کرکٹرز بھی پی ڈی سی اے کے ساتھ جڑتے چلے جا رہے تھے جو کہ پی ڈی سی اے کی بہت بڑی کامیابی تھی ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ملنے والی سپورٹ نے بھی اسے ملک بھر میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے فروغ اور ترقی کے ضمن میں کام کرنے میں معاونت فراہم کی ۔ لاہور میں پی ڈی سی اے کے کسی بھی نیشنل ایونٹ کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کے لئے لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں نیٹ پریکٹس کی اجازت بھی دے رکھی تھی ۔ پی ڈی سی اے جہاں پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے فروغ اور ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی تلاش کا کام اپنے تمام16ریجز کے ساتھ مل کر جاری رکھے ہوئے تھی وہیں وہ اپنے کرکٹرز کو وہ ابتدائی تربیت بھی فراہم کر رہی تھی جو کھلاڑیوں کو آف دی فیلڈ ڈسپلن سکھاتی ہے ۔

یہ بات تو صاف عیاں ہے کہ ہمارے ہاں نا صرف ڈس ایبلڈ کرکٹرز بلکہ نارمل کرکٹرز کی بڑی تعداد بھی ایسے علاقوں سے آتی ہے جہاں زندگی کے آداب سیکھنے اور سکھانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ۔ اچھے سے اچھا اور بہترین کرکٹر بھی کسی بڑی ٹیم میں آکر وہ باتیں سیکھتا ہے جو غیر ممالک میں بچوں کو اسکول کے دور میں ہی سکھا دی جاتی ہیں ۔ پی ڈی سی اے نے بلا تفریق اپنے تمام کھلاڑیوں کےلیے اعلیٰ معاشرتی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام بھی کیا ۔ انہیں زندگی کے وہ آداب سکھائے جو دنیا کے کسی بھی ملک اور معاشرے میں انہیں ممتاز پاکستانی کے طور پرنمایاں کر سکیں ۔ یہی نہیں پی ڈی سی اے نے انہیں وہ اعتماد بھی دیا جو انہیں نا صرف پاکستان بلکہ غیر ممالک کے فائیو اسٹار ہوٹلز میں بھی کسی سے مرعوب نہیں کر سکا ۔ ’’ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے جب ہمارا ڈس ایبلڈ کرکٹر بیرون ملک دورے کے دوران کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں خود بیٹھنے سے پہلے اپنے ساتھی کو کرسی پیش کرتا ہے ،اس کے بیٹھ جانے کا انتظار کرتا ہے تاکہ پھر خود بھی بیٹھ سکے ۔ یہی نہیں !ہمارے تمام کرکٹرزکانٹے چمچے کے ساتھ کھانے کے دوران تمام تر آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ‘‘ ۔ پی ڈی سی اے کے ایک اعلیٰ عہدےدار نے پر جوش انداز میں اپنی بات مکمل کی ۔

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ میں تمام شعبوں کی طرح کرکٹرز کی فزیکل فٹنس اوراس کے ساتھ ساتھ ڈسپلن پر بھی بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ ایسے واقعات موجود ہیں جب ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کھلاڑیوں پر خاص مدت کی پابندی لگائی گئی یا انہیں اگلے میچ کےلیے معطل کر دیا گیا ہو ۔ پی ڈی سی اے کے سیکریٹری امیر الدین انصاری چونکہ خود ایک سینئر اور تجربہ کار میچ ریفری ہیں اس لیے بھی پی ڈی سی اے میں ڈسپلن کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے ۔ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم نے جب دبئی میں انگلینڈ کے خلاف پہلی سیریز کھیلی تو کرکٹرز کی جانب سے کرفیو کی خلاف ورزی کی پہلی شکایت کا ہی سختی سے نوٹس لیا گیا اور غلطی کا ارتکاب کرنے والے کرکٹرز کو وارننگ جاری کر کے سب کو خبردار کر دیا گیا ۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی کھلاڑی یا کوچ یا ٹیم آفیشل کی جانب سے ڈسپلن کی معمولی خلاف ورزی بھی برداشت نہیں کی جاتی ۔ یہی حال فزیکل فٹنس کا بھی ہے ،ہر کرکٹر کو اپنی فٹنس کا خود خیال رکھنا ہوتا ہے ،اچھی بات یہ ہے کہ ہر کھلاڑی، خواہ وہ کہیں بھی رہتا ہو، اپنی فزیکل فٹنس کا خود خیال رکھتا ہے اور باقاعدگی سے اپنے ریجنل کوچ کو بھی اس بارے میں آگاہ کرتا رہتا ہے ۔

پی ڈی سی اے میں کسی بھی بیرون ملک کے دورے کے بعد منیجر کی رپورٹ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی جانب سے دی گئی تجاویز کو آئندہ کے دورے کے لئے مشعل راہ کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ اسی طرح کسی ڈومیسٹک ایونٹ کے بعد ریجنل ٹیموں کے منیجرز سے بھی ان کی ٹیموں کے حوالے سے ٹور رپورٹ طلب کی جاتی ہے اور اس بات کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ کہیں پر کچھ غلط تو نہیں ہورہا ۔ میری 25سالہ صحافتی زندگی کا ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں درجنوں این جی اوز ڈس ایبلڈ افراد کے حوالے سے کام کر رہی ہیں لیکن ان کی تمام تر توجہ بیرون ممالک سے فنڈز کے حصول پر ہوتی ہے اور یہ کہ فنڈز مل جانے کے بعد مستحق افراد پر کم اور ان کی اپنی ذات کےلیے زیادہ خرچاکیا جاتا ہے ،پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن پاک سرزمین کا واحد ادارہ ہے جو نا صرف ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو تلاش کر کے ان کا معیار زندگی بلند کرتا ہے بلکہ ان سے کچھ لینے کے بجائے انہیں بہت کچھ دیتا ہے ۔ (جاری ہے)

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *