پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (پچیسواں اور آخری حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (پچیسواں اور آخری حصہ)

عمرشاہین

انگلینڈ میں پانچ ملکی ورلڈ کرکٹ سیریز میں شکست کے بعد پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم جب وطن واپس پہنچی تو اس کا اسی طرح استقبال کیا گیا جس طرح کہ ایک سال قبل اس وقت کیا گیا تھا جب یہی ٹیم تین ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ جیت کر آئی تھی ،اسی کراچی ائیر پورٹ پر پی ڈی سی اے حکام ،پی سی بی کے مقامی آفیشلز ،کراچی کے کرکٹ حلقوں سے وابستہ لوگوں کے علاوہ کھلاڑیوں کے اہل خانہ کی کثیر تعداد نے قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کا استقبال کیا اور کسی ایک فرد واحد نے بھی ان کھلاڑیوں پر یہ ظاہر نہیں نے دیا کہ وہ شکست کھا کر آئے ہیں ۔ ہر کوئی قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی پذیرائی میں مصروف تھا ،اس موقع پر خود کھلاڑیوں کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی فاتح کی طرح اپنے وطن آئے ہیں ۔

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کو پاکستانی عوام ،کھلاڑیوں کے اہل خانہ اور خود پی ڈی سی اے حکام کی جانب سے کھلاڑیوں کی اس قدر پذیرائی کے پیچھے یہی پیغام تھا کہ ہمارےلیے بلکہ تمام پاکستانیوں کے لئے اصل مقصد ڈس ایبلڈ کرکٹرز کی ہر لحاظ سے حوصلہ افزائی ہے ،ہ میں ان سے کسی ٹرافی ،کسی میڈل کی ضرورت نہیں ،ہ میں ان کی ہر طرح اور ہر موقع پر دل جوئی کرنی ہے ،ہر حال میں ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہے ،انہیں وہ اعتماد دینا ہے جو کسی بھی نارمل فرد یا نارمل کرکٹر اور نارمل اسپورٹس مین کو دیا جاتا ہے ۔ ان ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو ذہنی طور پر اس قدر مضبوط بنانا ہے کہ وہ معاشرے میں صرف اپنی محنت اور اپنے زور بازو سے اپنےلیے کوئی مقام بنائے ،کسی کا دست نگر بن کر نہ رہے اور نا ہی کسی کا طفیلی بن کر زندگی بسر کرے ۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک جتنا کام پاکستان کے ڈس ایبلڈ افراد اور کرکٹرز کے لئے کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا ۔ پی ڈی سی اے کی بدولت ہی پاکستانی معاشرے سے معذور افراد کے لئے مروج الفاظ جیسے لولا ،لنگڑاوغیرہ کا خاتمہ ہوا اور اب ہر کوئی ایسے افراد کو دیکھ کر ان کے لئے ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتا بلکہ انہیں ڈس ایبلڈ کہتا ہے ۔

ہمارا معاشرتی المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ماضی میں ایسے ڈس ایبلڈ افراد کو نازیبا الفاظ سے پکارتے تھے اور نا صرف پکارتے تھے بلکہ ان ہی الفاظ کو بار بار دہرا کر ان کی ہتک کرتے تھے اور ان کو دھتکارتے تھے ۔ یہ پی ڈی سی اے کی بدولت ہی ہوا کہ اب ایسے افراد کو مہذب لفظ ڈس ایبلڈ سے پکارا جاتا ہے اور ایسا بھی اس لئے ہوا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ڈس ایبلڈ کرکٹ پاکستان کے کونے کونے میں کھیلی جا رہی ہے اور یہ کہ جہاں جہاں ان کے میچز ہوتے ہیں وہاں ان کھلاڑیوں کو ڈس ایبلڈ کرکٹر کہا جاتا ہے اس لئے بچے بچے کی زبان پر اب ماضی کے نازیبا الفاظ کی بجائے ڈس ایبلڈ آتا ہے،یہ پی ڈی سی اے کی وہ خاموش عظیم خدمت ہے جس کی جانب آج تک کسی کا دھیان نہیں گیا ۔

میں اس سے پہلے بھی اسی مضمون میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بعد پاکستان میں کرکٹ کا کوئی منظم اور بھر پور انداز میں کام کرنے والا ادارہ ہے تو وہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن ہی ہے ،پاکستان میں کئی انٹر نیشنل کرکٹ سیریز ،پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے کئی غیر ملکی دورے،انگلینڈ میں تین ملکی کرکٹ سیریز میں فتح ،پاکستان میں متعدد نیشنل ٹی20چیمپئن شپس ،بڑی تعداد میں پینٹینگولر کرکٹ ٹورنامنٹس کا انعقاد معمولی بات نہیں ہے ،پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ آج بھی تروتازہ ہے اور اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتی کے ساتھ پھل پھول رہی ہے ۔ پی ڈی سی اے حکام ماضی کی طرح آج بھی اپنے کام اور اپنے کاذ سے مخلص ہیں ۔

کرونا جیسی مہلک وبا سے نمٹنے اور دوسا ل کا عرصہ گزارنے کے بعد جہاں دنیا بھر میں تمام شعبوں سمیت اسپورٹس کی رونقیں بھی بحال ہو رہی ہیں وہیں پی ڈی سی اے کے پاس بھی مستقبل کے لئے کئی پلان موجود ہیں جن پر مکمل اور مثبت انداز میں عملدرآمد آج بھی سب کو حیران کر سکتا ہے ،میری دعائیں اور نیک تمنائیں پی ڈی سی اے کے قیام سے لے کر آج تک پی ڈی سی اے کے ساتھ تھیں اور آئندہ بھی رہیں گی ۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *