پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا مرد مجاہد اسلم خان بڑیچ (پہلا حصہ)

پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا مرد مجاہد اسلم خان بڑیچ (پہلا حصہ)

عمر شاہین

وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسی ستائش اور صلے کی تمنا کئے بغیر کسی ایک نیک مقصد کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں ،ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد رضائے الٰہی ہوتا ہے اور وہ خدائے بزرگ و برترسے ہی اپنی کوششوں کا صلہ لینے کے طالب ہوتے ہیں ،ایسے ہی بے لوث اور مخلص افراد میں ایک نام کوءٹہ سے تعلق رکھنے والے محمد اسلم بڑیچ کا ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے کرکٹ سے وابستہ ہیں ،کرکٹ امپائر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہترین منتظم ،انسان اور کھیل و کھلاڑی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص ہیں ۔ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کے ساتھ وہ روز اول سے منسلک ہیں ،اور اس حوالے سے اگر ایک جملے میں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ہو تو بلا سوچے سمجھے یہ لکھا جا ئے کہ بلوچستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کو متعارف کروانے کا سہرا محمد اسلم بڑیچ کے سر ہے ،تو غلط نہ ہوگا ۔

پاکستان میں جب ڈس ایبلڈ کرکٹ کا آغاز ہوا تو یہ صرف کراچی تک محدود تھی تاہم پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ کرکٹ چیمپئن شپ کے انعقاد کے لئے ملک بھر کے تمام16ریجن میں اس طرز کی ٹیموں کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو پی ڈی سی اے کے سیکریٹری امیرالدین کی نظر انتخاب محمد اسلم پر پڑی اور انہوں نے بھی پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشن کو مایوس نہیں کیا ۔ ’’یقینی طور پر یہ ایک بہت مشکل کام تھا ،آپ جانتے ہی ہیں کہ بلوچستان میں اچھے نارمل کرکٹرز بھی مشکل سے ملتے ہیں ،چہ جائیکہ ڈس ایبلڈ کرکٹرز ! ۔ لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور صوبے کے تمام اضلاع میں رابطے شروع کر دیے ۔ ‘‘ محمد اسلم بڑیچ نے بتایا ۔ ’’ہم نے حیدر لہڑی کی ہدایات پر دوردراز کے علاقوں سے ایسے لڑکوں کو جمع کیا جو ڈس ایبلڈ مگر کرکٹ کاجنون کی حد تک شوق رکھتے تھے ۔ ابھی ہم لڑکوں کو جمع کر ہی رہے تھے کہ پی ڈی سی اے نے کوءٹہ میں ٹرائلز کا اعلان کر دیا ۔ یہ ہمارے لئے بہت پریشانی کی بات تھی ،اس لئے کہ ابھی لڑکے کنفرم نہیں تھے اور ٹرائلز کی تاریخ دینا پڑ گئی ‘‘ ۔

اس دل چسپ صورت حال کے حوالے سے محمد اسلم نے مزید بتایا’’جب پی ڈ ی سی اے کے آفیشلز ٹرائلز کے لئے کوءٹہ پہنچ گئے اوراگلے روز ہم گراءونڈ جا رہے تھے تو میرے دل میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ معلوم نہیں ٹرائلز میں کتنے لڑکے آئے ہونگے ،ایسا نہ ہو سبکی ہو جائے اور ساری محنت پر پانی پھر جائے ۔ لیکن وہاں پہنچ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے40سے زائد کھلاڑیوں کو ٹرائلز پر دیکھا ،آپ میری خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے ،لیکن مجھ سے زیادہ خوشی امیرالدین کو تھی ،کیونکہ یہ ان کا خواب تھا جو اب حقیقت ہونے جا رہا تھا ،بہر حال ٹرائلز ہوئے ،بہت با صلاحیت کھلاڑی نظر آئے ۔ منتخب کھلاڑیوں کا اگلے روز نارمل کلب سے میچ بھی کروایا گیا ،مجھے ہی نہیں ہم سب کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ ٹرائلز سے منتخب ہونے والے ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے بلوچستان کی تاریخ کے پہلے ڈس ایبلڈ کرکٹ میچ میں بہت عمدہ کھیل پیش کیا ‘‘ ۔

پہلی نیشنل ڈس ایبلڈ ٹی20کرکٹ چیمپئن شپ میں کوءٹہ کی ٹیم نے بہت عمدہ کھیل پیش کیا ،چونکہ تمام ریجن کی ٹی میں پہلی بار تشکیل دی گئی تھیں اس لئے میچز بہت اچھے ہوئے ۔ پہلے ایونٹ میں تمام کھلاڑی پورے بلوچستان سے لئے گئے تھے لیکن اسے کوءٹہ کا نام دیا گیا تھا ۔ بعد میں پی ڈی سی اے نے جب پانچ ٹیموں کا ٹورنامنٹ کروایا تو اس میں شریک ٹیم کو بلوچستان کا نام دیا گیا ۔ شروع میں ہ میں کھلاڑیوں کو بنیادی تربیت دینے ،ان کا کھیل کے حوالے سے مائنڈ سیٹ کرنے اور مکمل اسپورٹس مین بنانے میں بہت مشکلات پیش آئیں ۔ اچھی بات یہ تھی کہ بلوچستان کے دوردراز کے علاقوں سے آنے والے سیدھے سادھے کھلاڑی بہت کچھ سیکھنے کے جذبے سے سرشار تھے ۔ ’’ہم نے انہیں کرکٹ کے علاوہ زندگی میں کام آنے والی باتیں اور آداب سکھائے ،ایسی باتیں جو عام طور پر ڈس ایبلڈ افراد کو ان کے گھر والے بھی نہیں سکھاتے‘‘ ۔ اسلم خان پرجوش انداز میں بتاتے رہے ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *