پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (پندرھواں حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (پندرھواں حصہ)

عمرشاہین

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کی تین ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں رسائی پر جہاں تمام کھلاڑیوں اور آفیشلز نے خوشیاں منائیں وہیں پاکستانی میڈیا نے بھی قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کی کامیابی کو نمایاں انداز میں اجاگر کیا ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ڈس ایبلڈ ٹیم کی زبردست پذیرائی کی گئی ۔ انگلینڈ سے قومی ٹیم کی کارکردگی کی خبریں مسلسل پاکستان بھیجی جا رہی تھیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ میچ اور کھلاڑیوں کے فوٹو بھی ارسال کیے جا رہے تھے ،قومی ٹیم کے تمام کھلاڑی اور آفیشلز صبح بیدار ہونے کے بعد جو سب سے پہلا کام کرتے تھے وہ انٹر نیٹ پرپاکستانی اخبارات اور قومی چینلزپر اپنی خبریں دیکھنا تھا اور پھر دن بھر ان خبروں اور شاءع ہونے والی تصاویر پر تبصرے کیے جاتے ،قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے ساتھ موجود محمد نظام اپنے اس فریضہ کو احسن انداز سے انجام دے رہے تھے اور اپنی اسی خوبی کی بناپر وہ اول دن سے ڈس ایبلڈ کرکٹرز میں مقبول بھی تھے ۔

انگلینڈ کے اس دورے کے دوران قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کو وورسٹر شائر یونیورسٹی میں ٹھہرایا گیا جو بجائے خود ایک بہت بڑا اعزاز تھا ۔ وورسٹر شائر یونیورسٹی کا شمار دنیا کی چند قدیم ترین یو نیورسٹیز میں ہوتا ہے جبکہ اس کا ہاسٹل بھی بہت خوبصورت اور قدیم طرز تعمیر کا شاہکار ہے ۔ میزبانوں نے پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے ہر کھلاڑی کےلیے الگ کمرہ کا انتظام کر رکھا تھا اور ان کو کسی وی آئی پی کا درجہ بھی دے رکھا تھا ۔ ان کی میزبانی کا معیار اس قدر بلند تھا کہ وہ ہر کھلاڑی پر انفرادی توجہ دے رہے تھے ۔ ’’میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں ان کی میزبانی اور اس حوالے سے ان کے آداب اور رکھ رکھاءو کے بارے میں بیان کر سکوں ‘‘ ۔ پی ڈی سی اے کے ایک اہم عہدے دار نے پر جوش انداز سے بتایا ۔ ’’ پاکستان کی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو وہی پروٹو کول ملا جو کسی بھی ملک کی کرکٹ ٹیم کو ملتا ہے ،اور یہ بات آج بھی ہ میں ایک عجب طرح کی سرشاری عطاکر تی ہے ۔ اس بات کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے انگلینڈ میں اس طرز کی میزبانی کا لطف اٹھا یا ہو ۔ ‘‘

ٹورنامنٹ کا ایک میچ وورسٹر شائر کاءونٹی کے ہوم گراءونڈ پر بھی کھیلا گیا ،یہ وہی گراءونڈ تھا جہاں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم اور 1992کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان نے بھی اس کاءونٹی کی جانب سے بھر پور کرکٹ کھیلی ۔ اس گراءونڈ کے ڈریسنگ روم میں عمران خان کی کئی تصاویر موجود تھیں ،جن کو دیکھ کر ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو حوصلہ ملتا رہا اور ان کے ذہن میں یہ خیال بھی جاگزیں ہوتا رہا کہ ہم ایسے تاریخی گراءونڈ پر میچ کھیل رہے ہیں جس کا تذکرہ ہم آئندہ برسوں میں اپنے پوتوں کے سامنے بھی کر سکتے ہیں کہ ہم نے انگلینڈ کے اس میدان میں بھی کرکٹ کھیلی ہے جہاں عمران خان جیسا عظیم کرکٹر کھیل چکا ہے اور یہ کہ ہم نے انگلینڈ کی تاریخی یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ وورسٹر شائر کاءونٹی کی دیگر کئی قدیم عمارات بھی دیکھ رکھی ہیں اور ان کی میزبانی کا لطف بھی اٹھا رکھاہے ۔

وورسٹر شائرپرمیچ کے دوران قومی ڈس ایبلڈ کرکٹرز کو عمران خان اور دیگر پاکستانی کرکٹرز کے بارے میں بھی مقامی لوگوں نے بہت کچھ بتایا ۔ جس سے نا صرف ان کی معلومات میں خوش گوار اضافہ ہوا بلکہ ان کامورال بھی پہلے سے بہت بلند ہوا ۔ اس ٹورنامنٹ کے چند میچز ویسٹ منسٹر کلب کے گراءونڈ پر منعقد ہوئے،دل چسپ بات یہ تھی کہ عمران خان نے بھی اس معروف کلب سے کرکٹ کھیل رکھی ہے ۔ وورسٹر شائر کے اسی تاریخی گراءونڈ پر پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ہزاروں تماشائیوں کے سامنے گراءونڈ کا چکر لگانے کا موقع بھی ملا ۔ پاکستان کے دیہاتی اور دوردراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈس ایبلڈ کرکٹرز کےلیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا ۔

گراءونڈکا چکر لگانے کے دوران کئی پاکستانی ڈس ایبلڈ کرکٹرز اپنی اندرونی خوشی ،احساس تفاخر اورپاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کو تھامنے کے ساتھ ساتھ اس کے وقار و تکریم میں مزید اضافہ کرتے ہوئے خوشی سے رونے بھی لگ گئے تھے،ان کے آبدیدہ چہروں پر آنسوءوں کے ساتھ ساتھ دل آویز مسکراہٹ بھی رقص کر تی رہی ۔ اس وقت ان کے یہ خوشی کے آنسواس کوہ نور ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی اور نایاب تھے جو برطانیہ کے کسی میوزیم میں موجود تھا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے ملک کی نمائندگی کا احساس ہی کچھ کم نہیں ہوتا کہ کسی کھلاڑی کو اپنے ملک کے پرچم کو سربلند کر کے گراءونڈ کا چکر لگانے کاموقع مل جائے ۔ کئی قومی ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے اس یادگار موقع کی تصاویر بنائیں اور بڑے فخر کے ساتھ پاکستان میں اپنے پیاروں کو ارسال کیں ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *