پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (اٹھارہواں حصہ)

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ کے عروج کا سفر آج بھی جاری ہے (اٹھارہواں حصہ)

عمرشاہین

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی تین ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ جیت کر جب پاکستان واپس آئے تو ان کا کراچی ایئر پورٹ پر اسی طرح پر تپاک اور شاندار استقبال کیا گیا جس طرح کہ انہیں رخصت کیا گیا تھا ،اب فرق یہ تھا کہ پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم فاتح ٹرافی کے ساتھ وطن واپس آئی تھی ۔ ایئر پورٹ پر نا صرف قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے اہل خانہ بلکہ پی ڈی سی اے کے آفیشلز ،میڈیا کے نمائندے اور کراچی کے کرکٹ حلقے سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی ۔ قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں شامل ہر کرکٹر اس وقت خود کو پاکستان کا ہیرو سمجھ رہا تھا ،انگلینڈ میں کرکٹ کھیلنا ہی بہت بڑی بات ہوتی ہے چہ جایءکہ آپ ٹورنامنٹ جیت کر آجائیں ، اس کی بات ہی الگ ہوتی ہے ۔ ملکی میڈیا کی جانب سے کی گئی پذیرائی خود پی ڈی سی اے کے حکام کے لیے بھی بہت بڑا انعام تھا ،اور کیوں نہ ہوتا َپی ڈی سی اے کو اپنی محنت کا صلہ مل رہا تھا ۔

قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم مسلسل جیت رہی تھی ،فتوحات مل رہی تھیں جبکہ انگلینڈ کا دورہ بھی کامیابی سے مکمل ہو گیا تھا جس میں کسی بھی کھلاڑی یا ٹیم آفیشلز کی جانب سے کسی قسم کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی تھی ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کے حوالے سے اپنے پیارے ملک کی نمائندگی ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتی ۔ 2010 میں جب قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم پہلی بار بیرون ملک دورے پر جا رہی تھی تو ڈس ایبلڈ کرکٹ کے بانی سلیم کریم فکر مند تھے کہ اگر خدانخواستہ اس دور ے میں کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کا مستقبل تاریک ہو جائے گا ۔ ان کا متفکر ہونا اپنی جگہ درست تھا ۔ کسی بھی ملک کے کھلاڑی بیرون ملک میں اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں ان کی ہر اچھی بات جہاں ان کے ملک کی عزت و تکریم میں اضافہ کرتی ہے وہیں ان کی معمولی سی لغزش ان کے وطن کو بدنام کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ،لیکن پاکستان کے ڈس ایبلڈ کرکٹرز نے آج تک بیرون ملک میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا یا جس سے وطن عزیز کی حرمت پر آنچ آئے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔

پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم نے2015 میں جب بنگلہ دیش میں پانچ ملکی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا تھا تو اس کے ہر میچ سے قبل پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا اور ساتھ ہی قومی پرچم بھی لہرایا گیا تھا ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بہت کم ایسا ہوا ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا یا گیا ہو ، میں سمجھتا ہوں کہ اس کا کریڈٹ بھی پی ڈی سی اے کو جاتا ہے کہ اس کی بدولت بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پاکستان کا پرچم پانچ بار لہرایا گیا ،یہ ایک ایسا اعزاز تھا جواس سے قبل صرف پاکستان کی کرکٹ اور ہاکی ٹیم کو ہی مل سکا تھا ۔ یہ پی ڈی سی اے کی خوش بختی ،اس کی اپنے کھیل سے پر خلوص لگن ،اپنے کھلاڑیوں سے اس کی دلی وابستگی ،وطن عزیز کی حرمت کا ہر دم پاس رکھنے کا احساس اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کے قومی ترانے اور قومی پرچم سے جنون کی حد تک محبت ہے جس نے اسے کئی ممالک میں سرخ رو کیا ۔

میں اس حوالے سے پی ڈی سی اے کی بھر پور ستائش کرتا ہوں کہ گزشتہ11برس کے دوران ان کی جانب سے بیرون ملک ڈسپلن کی خلاف ورزی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس پر بجا طور پر نا صرف پی ڈی سی اے کے حکام ،قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم بلکہ ہر وہ پاکستانی بھی فخر کرے گا جو کرکٹ کو سمجھتا ہے یا اسے کھیلوں سے محبت ہے ۔ یہی نہیں بلکہ میں اسے پی ڈی سی اے حکام کی زندگی بھر کی کمائی قرار دوں گا کہ انہوں نے پاکستان کے دوردراز کے علاقوں سے ایک ایسے طبقے کے افراد کو منتخب کیا جنہیں بعض صورتوں میں ان کے اپنے گھر والے بھی ’’قابل اعتنا ء‘‘ نہیں سمجھتے ۔ ایسے لوگوں کو کرکٹ کا بھر پور ماحول فراہم کرنا ،بیرون ملک دوروں پر لے جانا اور ان کی اس طرح تربیت کرنا کہ وہ اپنے ملک کا فخر بن جائیں یقینی طور پر بہت صبر آزما ،کٹھن اورآج کے خود غرضی کے دور میں جہاد کے برابر ہے ۔

جب یہ ڈس ایبلڈ کرکٹرز پاکستان سے باہر دنیا کے کسی بھی ملک میں ہم آواز ہو کر پاکستان کا ملی ترانہ پڑھتے ہیں اور سامنے قومی پرچم لہراریا ہوتا ہے تو ان کے احساسات کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا اور یہ کہ یہ احساسات واقعی ضبط تحریر نہیں کیے جا سکتے لیکن ایک جملہ ضرور لکھا جا سکتا ہے کہ روح تک کو سرشار کردینے والے ایسے احساسات دنیا بھر کی دولت کے بدلے بھی نہیں خریدے جا سکتے ۔ (جاری ہے )

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *