پشاور ریجن میں فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کا روح رواں، ساجد خان

پشاور ریجن میں فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ کا روح رواں، ساجد خان

عمرشاہین

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو دوسروں کے کام آکر حقیقی مسرت محسوس کرتے ہیں اور یہی لوگ ہی دراصل انسانیت کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں آج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو دوسروں کی کامیابی میں ہی خوشی محسوس کرتے ہیں ،گو ،کھیل کے شعبہ میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں لیکن موجود ضرور ہیں ،ایسی ہی ایک مثال خیبر پختونخواہ کے ساجد خان کی بھی دی جا سکتی ہے جو کے پی میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں ۔ بچپن سے جوانی اور اب ادھیڑ عمری میں بھی کرکٹ سے رشتہ جڑا ہوا ہے ،پاکستان میں ڈس ایبلڈ کرکٹ کے آغاز سے ہی ساجد خان اس سے جڑے ہوئے ہیں ،یقینی طور پر ڈس ایبلڈ کرکٹ کو نا صرف کے پی کے بڑے شہروں میں بلکہ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بھی فروغ دینے اور نئے ٹیلنٹ کی ہمہ وقت تلاش کی عادت نے انہیں کے پی میں بہت معروف بنا دیا ہے ۔ ڈس ایبلڈ کرکٹ میں ان کی مقبولیت کے پیچھے ان کی بے لوث خدمت اور کرکٹرز کے ساتھ دلی جذباتی جیسے اہم عناصر ہیں جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتے ۔

پاکستان فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ ایسوسی ایشن میں بطور پشاور کو آرڈی نیٹر خدمات انجام دینے والے ساجد خان نے بہت اچھی کرکٹ بھی کھیلی لیکن ان کی اصل پہچان کرکٹ کھلانے سے ہوئی ۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ مختلف کرکٹ ٹیموں کے منیجرز رہے ،یہی وجہ تھی کہ انہیں گراس روٹ لیول سے کام کرنے کا بھی خوب اندازہ تھا ، پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے انہیں علم تھا کہ لڑکوں کو اعلیٰ درجے کی کرکٹ کھلانے کے لئے انہیں اسی کے مطابق سہولیات بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ لڑکے بہتر سے بہتر پرفارم کر سکیں ۔ پی پی ڈی سی اے کی نظر انتخاب پشاور ریجن کے حوالے سے جب ساجد خان پر پڑی تو انہوں نے پی پی ڈی سی اے کو مایوس نہیں کیا اور توقعات سے بھی بڑھ کر کام کیا جس سے پشاور سے با صلاحیت ڈس ایبلڈ کرکٹر ابھر کر سامنے آئے ،جنہوں نے نا صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی نام کمایا اور ملک کا نام روشن کیا ۔

’’فزیکل ڈس ایبلٹی کے حامل کرکٹر کی تلاش شروع میں بہت بڑا مسئلہ تھی ‘‘ ۔ ساجد خان نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا ۔ ’’پشاور اور گردو نواح میں جب میں ڈس ایبلڈ کرکٹر زکی تلاش کے لئے جاتا تھا تو لوگ مجھ پر ہنستے تھے ،اکثر یت کا ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ جسمانی طور پر معذور (جنہیں وہ انتہائی حقارت سے لولا لنگڑا کہا کرتے تھے )کیسے کرکٹ کھیل سکتا ہے ۔ لیکن میں ان کی بات کو ہنس کر ٹال دیا کرتا اوراپنی تلاش کا کام جاری رکھتا ،کئی بار تو ہم نے اخبارات میں اشتہار بھی جاری کروائے کہ جسمانی طور پر معذور کرکٹرزکا ٹورنامنٹ کروایا جا رہا ہے اور یہ کہ اس میں شرکت کے لئے ڈس ایبلڈ افراد ہم سے رابطہ کریں جنہیں کرکٹ کھیلنے کا شوق ہو ۔ ہماری مستقل مزاجی اور مسلسل محنت کا صلہ یہ ملا کہ صرف چند ماہ کے عرصہ میں پشاور کی ٹیم تیار کر لی گئی جس نے کراچی میں منعقدہ پہلی نیشنل چیمپئن شپ کھیلی‘‘ ۔ حال ہی میں کامیابی سے ختم ہونے والی آئی سی آر سی پریذنٹس ایس اے ایف نیشنل ٹی20نیشنل فزیکل ڈس ایبلٹی کرکٹ چیمپئن شپ میں کئی کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے تھے جس میں پشاور کے بھی کئی نوجوان کرکٹرز شامل تھے ۔ ’’جی ہاں !اب وقت بدل گیا ہے ‘‘ ۔ ساجد خان نے مسرت انگیز لہجے میں کہا ۔ ’’ شروع شروع میں ہم کھلاڑی ڈھونڈتے تھے ،اب ڈس ایبلڈ کرکٹرز ہ میں ڈھونڈتے ہیں ۔ یہ پی پی ڈٖی سی اے کی مستقل محنت ،ایمان داری سے اپنے کام پر فوکس اور یقین ہی تو ہے کہ اب نا صرف پشاور ریجن بلکہ تمام ریجنز میں انتہائی با صلاحیت ڈس ایبلڈ کرکٹرز کا بہترین پول تیار ہوچکا ہے ،جن میں اکثریت نئے کھلاڑیوں کی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی پی ڈی سی اے کی جانب سے تمام ٹیموں کے ساتھ یکساں برتاءو کیا جاتا ہے ،یہ نہیں ہے کہ کراچی میں اس طرز کی کرکٹ کا آغاز ہوا ہے تو اسے دوسرے ریجن پر فوقیت دی جائے ۔ پی پی ڈی سی اے نے کسی بھی ریجن میں کبھی بھی احساس محرومی پیدا نہیں ہونے دیا اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے ‘‘ ۔ (جاری ہے

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *